ستمبر 4سال 2017 کے روز آسام کے ایک معمولی قصبے ناگون سے کاروان محبت کی شروعات عمل میں ائی اور اس کا اختتام 2اکٹوبر2017کو گجرات کے ایک چھوٹی سے بندرگاہ پور بندر جہاں پر مہاتما گاندھی کی جنم ہوا تھا اختتام پذیر ہوئی ۔ اپنے سفر کے دوران کاروان کا سامنا تشدد پر مبنی نفرت کرنے والوں سے بھی ہوا اور بعض مقامات پر غیرمعمولی استقبال بھی کیاگیااور میزبانوں نے اس قسم کے کاروان کو جاری رکھنے پر بھی زوردیا۔مذکورہ سفر نہ صرف زبانی طور پر جاری رہے گا بلکہ عملی طور پر اس سفر کو عملی جامعہ پہنایا جائے گا۔
جب ہمارا کاروان سفر جاری تھا اسی دوران ہمیں خبر ملی ہے کہ گربھا دیکھنے پر ایک دلت لڑکے کے ساتھ ہجوم نے مارپیٹ کی اور دونوجوانوں کو موچھ رکھنے کی وجہہ سے زدکوب کیاگیا‘ ایک عورت کو چڑیل بتایا کر قتل کردیاگیا‘ پولیس کے ہاتھوں مسلم نوجوانوں کا مسلسل قتل کیاجارہا ہے ‘ گائے کے نام پر ہجوم کی بربریت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جب تک ہم مشترکہ طور جو ہندوستان ہیں۔اس قسم کے واقعات کی روک تھام کو یقینی نہیں بنالیتے تب تک کاروان کا یہ سفر ختم نہیں ہوگا۔ ہم پوری سنجیدگی کے ساتھ ہر مہینہ‘ کم سے کم ایک ریاست میں اس طرح کے مظالم کاشکار خاندانوں سے ملاقات کریں گے۔دوسرے بات کاروان کے تمام ممبر ایک ہندوستان نفرت کے جرائم شہری واچ کے تحت ایک بڑے اشتراک کے ساتھ تیار ہیں ۔
ہم نے سفر کے دوران محسوس کیاکہ بہت سارے نفرت پر مبنی واقعات جومعمولی نوعیت کی نوک جھونک کے بعد پیش ائے ہیں کامیڈیا میں ذکر نہیں کیاجارہا ہے یہاں تک کے مقامی ذرائع ابلاغ میں بھی ان واقعات کو جگہ فراہم کرنے کی گنجائش نظر نہیں آرہی ہے۔ ان میں سے کچھ ہی مثال کے طور پر محمد اخلاق‘ پیہلو خان حافظ جنیدہی قومی توجہہ کا سبب بن سکے ہیں۔ کاروان کے دوران ہم نے یہ بھی سمجھا کہ پولیسان واقعہ کو نفرت پر مبنی واقعات کے بجائے سڑک کے حادثات کے طور پر رجسٹرارڈ کررہی ہے۔گائے رکشہ کے قوانین کی خلاف ورزی ہویا پھر خود کی حفاظت میں کی جانے والی پولیس فائیرنگ ہو ۔
گھر والے بالخصوص مسلم متاثرین بعض اوقات تو پولیس میں شکایت درج کرانے کی بھی کوشش نہیں کررہے ہیں‘ کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ شکایت کریں گے تو ان پر میویشیوں کی منتقلی کے نام پر حملہ کیاجائے گا‘ پولیس نے حملہ آوروں اور ہجوم کے بجائے ان لوگوں پر ہی مقدمات درج کئے جائیں گے۔کاروان نے اپنے اٹھ ریاستوں کے سفر کے دوران روبرو ائے واقعات جس میں ریاستی حکومتیں ‘ آر ایس ایس او ران کے حامیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر اقلیتوں او ردلتوں کے خلاف استعمال کئے جارہے نفرت پر مبنی تشدد کے طریقہ کار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔
اپنے مصدقہ دعوؤں میں انہوں نے کہاکہ یہ واقعات غیر معمولی ‘ بے ترتیب اور بے شمار ہیں۔وزیراعظم ہر چھ ماہ یا ایک سال میں بہت ہی مختصر اور آسان انداز میں جملوں کے ذریعہ ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں‘ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے کبھی بھی سخت رویہ اختیار نہیں کیاگیا ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈرس بشمول سینئر منسٹرس قتل کے ان واقعات کوحق بجانب قراردیتے ہوئے گائے کی قربانی اور قتل‘ عورتوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کو اس تشدد کی اصل وجہہ بتاتے ہیں۔
نریندر مودی کے بطور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی ذرائع ابلاغ سرکاری طور پر نفرت پر مشتمل تشدد کو بے نقاب کرنے میں پوری طرح ناکام رہا۔سوائے دو کہ جس میں این ڈی ٹی وی اور ہندوستان ٹائمز بابی گھوش کے قیادت میں کام کررہے ہیں۔این ڈی ٹی وی کو دھمکانے کے لئے بہت سارے اقدامات اٹھائے گئے تاکہ آزاد ذرائع ابلاغ کو خرید کر خاموش کیاجاسکے۔
حکومت قومی جرائم ریکارڈس بیور اور قومی ذرائع ابلاغ ملک میں بڑھتی نفرت کے پیش نظر ہونے والے واقعات کی فطرت سے ناواقف دیکھائی دے رہا ہے ۔ اس کے لئے ہم نے سٹیزن واچ کے تمام والینٹرس جس میں طلبہ‘ وکلاء ‘ صحافی ‘ ماہرتعلیمات‘ سماجی جہدکار شامل ہے ‘ ہر اس ریاست میں جہاں نفرت پر مبنی کاروائیاں کی گئی ہوں وہاں پر تحقیقات اور مستندمواد جو ان واقعات پر مشتمل ہو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری انہیں تفویض کی گئی ہے کیونکہ ہمیں ان واقعات کی جانچ کرنا ضروری ہے۔ یہاں پر ایسے کام کی شاندار شروعات سٹیزن مخالف نفرت‘ پی یو ڈی آر او ردیگر نے کی ہے جو ان واقعات کی گہری تک جاکر جانچ کررہے ہیں۔ کاروان امن بھی کچھ اسی طرح کاکام سٹیزن واچ کے ذریعہ انجام دینے کی کوشش کررہا ہے
تیسرا اور ہم فیصلہ کاروان محبت کا یہ ہے کہ نفرت کے تشدد سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کرنا ہے۔انہیں چار طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ پہلا انصاف کے لئے قانون جدوجہد۔ دوسرا ذہنی او رمعاشی خیال تاکہ ان کی ضرورتیں کی تکمیل کی جاسکے۔ تیسرامتاثرین کا استحکام جس طرح حکومت کی جانب سے ایکس گریشیاء اور جیسے کہ ان کی تعلیم‘ وظائف‘ صحت کا خیال رکھنا ہے۔ چوتھا ان کے لئے ضروری سامان ‘ زندگی کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش جو انہیں کھانے فراہم کرنیوالوں کو ہلاک کرنے کے بعد پوری طرح تباہ ہوگئے ہیں۔
قانون انصاف حاصل کرنے کے لئے صحیح طریقہ کار کو اپنانے اور متاثرین کو حملہ آواروں کی دھمکیوں اور متاثرین کو محروس کرنے کی کوششوں کے خلاف موثر حکمت عملی۔بہت ساری تنظیمیں جیسے ہیومن رائٹس لاء نٹ ورک‘ سٹیزن مخالف نفرت اور کچھ مسلم تنظیمیں اس طرح کی پہلے سے ہی پہل کررہے ہیں۔ تمام کو اکٹھاکرنے کے بعداس کام کو مزید طاقتور او رموثر انداز کیاجائے گا۔بالآخر کاروان کتابوں ‘تصوئیری نمائش اور پبلک ٹاک ‘ فلمس کے ذریعہ اس حساس موضوع کو زیر بحث لانے کاکام کررہا ہے ۔ ہم عوام سے اپیل بھی کررہے ہیں اس قسم کی کاوشوں میں شامل ہوں۔ نفرت کی سیاست والا شیطان اس زمین پرہمارا تعقب کررہا ہے۔ اس سے مقابلے کے لئے ہمیں دستوری اقدار کا حیاء عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ اوردوسروں کو بھی اپنا سفر جاری رکھنے کی ضرورت ہے