چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ محفوظ، دہشت گرد حملوں کے خلاف شہریوں کا احتجاج ، صدر اشرف غنی سے استعفیٰ کا مطالبہ
کابل۔ /3 جون (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک جنازے کے دوران تین خودکش دھماکوں میں سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں 118 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔کابل میں جمعے کے روز مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے سالم ایزدیار کے جنازے میں ہفتہ کی دوپہر کو تین خودکش دھماکے ہوئے ہیں۔اس جنازے میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبد اللہ عبد اللہ بھی شریک تھے تاہم انھیں اس حملے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔سالم ایزدیار افغان حکومت میں ایک سینیٹر محمد عالم ایزدیار کے بیٹے تھے اور جمعے کے روز پولیس نے مظاہرین پر جب فائرنگ کر دی تو ہلاک ہونے والوں میں سالم ایزدیار بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ چہارشنبہ کو ہوئے دھماکوں کے بعد کابل میں بیشتر علاقوں میں کرفیو لگا ہوا ہے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ سلیم عزت یار کے جلوس جنازہ میں تین دھماکے ہوئے۔ سلیم عزت یار اُن چار افراد میں شامل ہیں جو احتجاج کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوگئے تھے۔حالیہ خودکش حملے میں ہلاکتوں کے خلاف آج دوسرے دن بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ ہزاروں افراد نے دارالحکومت میں موثر سکیورٹی انتظامات کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ مظاہرہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ طاقتور ٹرک بم حملے میں 90 افراد ہلاک اور 450 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے خلاف احتجاجیوں کی کثیر تعداد نے رات بڑے خیموں کے نیچے بسر کی۔ صدارتی محل اور دھماکے کے مقام کے قریب دو بڑے خیمے نصب کئے گئے ہیں اور عوام یہاں احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے صدارتی محل اور سفارتی علاقوں میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں۔ پولیس نے گاڑیوں اور عوام کی آمدورفت پر یہاں پابندی عائد کردی ہے۔
کل احتجاجی مظاہرہ کے دوران پولیس نے یہاں پہنچ کر دو راؤنڈ ہوائی فائرنگ کی کیونکہ محل کی سمت بڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔ پولیس نے احتجاجیوں پر اسپرے اور آنسو گیاس کا استعمال کیا تھا۔ احتجاج سے صدر اشرف غنی کی کمزور اور بٹی ہوئی حکومت پر مزید دباؤ پڑا ہے جو حالیہ مہینوں میں سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے سلسلہ وار حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے ۔بدھ کے روز رمضان کے آغاز میں ہونے والا یہ بم حملہ 2001ء میں طالبان کے خلاف امریکی کارروائی کے بعد سے افغان دارالحکومت میں ہونے والا بدترین حملہ ہے ۔صبح سویرے ایک ہزار کے قریب احتجاج کرنے والے ہلاک ہونے والوں کی تصاویر اٹھاکر دھماکہ کے مقام پر جمع ہوگئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملہ کے لئے غنی اور چیف ایکزیکٹیو عبداللہ عبداللہ ذمہ دار ہیں۔خواتین نے بھی بڑی تعداد میں احتجاج میں حصہ لیا۔ مظاہرین نے جو تختیاں اٹھا رکھی تھیں ان پر ‘غنی عبداللہ استعفیٰ دو’لکھا ہوا تھا۔ غنی اور دیگر لیڈروں کی تصویروں کو ”کراس” بناکر کاٹا گیا تھا۔فساد شکن پولیس نے مظاہرین کو صدارتی محل تک جانے سے روکنے کیلئے پانی کی بوچھار اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ پولیس ان کے سروں کے اوپر سے گولیاں چلا رہی تھی۔ کئی مظاہرین پتھر پھینک رہے تھے ۔عبداللہ نے ٹی وی پر لوگوں کے صبر و تحمل برتنے کی اپیل کی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس تشدد اور سیاستی استحکام پر اس کے اثرات کے اندیشہ سے افغانستان کے بین الاقوامی شریک کس قدر فکر مند ہوگئے ہیں۔ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھی سلامتی دستوں کی کارروائی کی مذمت کی جنہوں نے عام لوگوں کی جانوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی۔ اگر چند لوگوں نے پتھرا ؤ بھی کیا تھا تو یہ ان کو مارنے کا جواز نہیں بنتا۔حکومت پر نکتہ چینی کے ساتھ ہی مظاہرین یہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے قیدیوں کو سزائے موت دی جائے کیونکہ حملہ کے لئے اس تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔