ڈی یو ایس یو صدر نے فرضی مارکس شیٹ کا استعمال کیاہے۔ این ایس یو ائی

دہلی یونیورسٹی میں 23سالہ باسویا فی الحال بدھ مت کی تعلیمات میں ایم اے کررہے ہیں‘ان کا دعوی ہے کہ تاملناڈو یونیورسٹی سے انہوں نے اپنا گرئجویشن مکمل کیاہے
نئی دہلی۔این ایس یوائی نے منگل کے روز مبینہ طور پر کہاکہ دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین ( ڈی یو ایس یو)کے نو منتخبہ صدر اے بی وی پی کے انکیو باسویا نے دہلی یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے جو’’گریجویشن کی جو ڈگری ‘‘ پیش کی ہے وہ دراصل فرضی ہے۔مبینہ فرضی مارک شیٹ بھی جو تاملناڈو کے تھریولیورو یونیورسٹی کی ہے اور باسویا نے جس کا استعمال کیاہے وہ بھی تقسیم کی گئی۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے تاملناڈو کی یونیورسٹی کے امتحان کنٹرولر بی سنتھیل کمار نے بھی سرٹیفکیٹ کی صداقت کو مشکوک قراردیاہے۔دہلی یونیورسٹی میں 23سالہ باسویا فی الحال بدھ مت کی تعلیمات میں ایم اے کررہے ہیں‘ان کا دعوی ہے کہ تاملناڈو یونیورسٹی سے انہوں نے اپنا گرئجویشن مکمل کیاہے۔

ستمبر13کے روزاین ایس یو ائی کے سنی چلر کو شکست دے کر ڈی یو ایس یو کی صدرات کے لئے جیت حاصل کی تھی مگر اس جیت کو بھی ای وی ایم مشین میں چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ قراردیاگیا ہے۔ جب بوسیا سے رابطہ قائم کیاگیا تو انہوں نے بتایا کہ2013سے2016تک انہو ں نے تاملناڈو سے تعلیم حاصل کی ہے۔ انہو ں نے کہاکہ ’’ میں نے وہاں( تاملناڈو کی مذکورہ یونیورسٹی) سے بی اے ریگولر کا کورسس کیاہے۔

این ایس یو ائی نے جومارک شیٹ تقسیم کی ہے وہ اب تک نہ تو ڈی یو انتظامیہ او رنہ ہی پولیس کو پیش کی گئی ہے‘ اس کے ساتھ تاملناڈو یونیورسٹی کا ایک مکتوب بھی منسلک ہے جس پر لکھا ہے کہ مارک شیٹ نقلی ہے۔

مذکورہ مکتوب جو یونیورسٹی کے امتجان کنٹرولر نے لکھا ہے اور چیرمن تاملناڈو کانگریس کمیٹی کو اس میں مخاطب کیاہے کہ’’ جس چیز کے متعلق پوچھاگیا ‘ اس کاپی کے ضمن میں ہمارا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ امیدوار کی جانچ پر یہ بات ہماری جانکاری میں ائی ہے کہ اس کی سند حقیقی نہیں ہے۔

یہ نقلی سرٹیفکیٹ ہے‘‘۔ این ایس یو ائی کانگریس کی ہی طلبہ تنظیم ہے۔جب کمار سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے کہاکہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ باسویا نے دہلی یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے سرٹیفکیٹ کا غلط استعمال کیاہے۔ انہو ں نے یہ بھی کہاکہ سینکڑوں کی تعدادمیں درخواستیں جو سرٹیفکیٹ کی تصدیق مشتمل وصول ہوتی ہیں۔

تاہم اے بی وی پی نے اس دعوی کے جواب میں کہاکہ’’ جو مکتوب این ایس یو ائی تقسیم کررہی ہے اس میں تاریخ ندارد ہے۔ اس کے علاوہ لیٹر میں کوئی حوالہ بھی شامل نہیں کیاگیا ہے‘‘۔

اے بی وی پی کے قومی میڈیاکنونیر مونیکا چودھری نے کہاکہ’’ دہلی یونیورسٹی نے باسویا کے سرٹیفکیٹ کی جانچ کے بعد ہی داخلہ دیاہے۔ یہ یونیورسٹی کے طریقہ کار میں شامل ہے۔ آج کی تاریخ میں بھی یونیورسٹی میں طلبہ کے نامو ں کے اندراج کے لئے یونیورسٹی دستاویزات کی صداقت کرتی ہے۔

مگر یہ کام این ایس یو ائی کا نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کو سرٹیفکیٹ فراہم کرے‘‘۔جب این ایس یو ائی کے میڈیا کنونیر سائمن فاروقی سے بات کی گئی تو انہو ں نے کہاکہ ’’ وہ اس ضمن میں شکایت درج کرائیں گے اور ایک احتجاجی پروگرام بھی منظم کیا جائے گا۔

اگر ڈگری نقلی ثابت ہوئی تو یونیورسٹی انتظامیہ کو اس کے خلاف کڑی کاروائی کرنا چاہئے‘‘