ڈونالڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کی طرف جھکاؤ

اس ہفتے خلیج فارس سے متعلق امریکی انتظامیہ کی پالیسی میں تبدیلی کو ریکس ٹلرسن نے بس ایک دوپہر ہی میں واضع کردیا۔بدھ کی دوپہر وہ امریکہ اور سعودی عرب کی مشترکہ سی ای او سربراہ کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون پر زور دے رہے تھے۔ یہ کانفرنس امریکی چیمبر آف کامرس نے منعقد کی اور اس میں سرمایہ کاری اور تجارت بڑھانے کے لیے کونسلر سطح پر مدد فراہم کرنے کے وعدے کیے۔کچھ ہی گھنٹوں بعد انہوں نے ایران کا شمالی کوریا سے موازنہ کیا اور ایران کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اْن کی "پریشان کن اور اشتعال انگیزی” کی وجہ سے یمن، عراق، شام اور لبنان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ایران کی جانب سخت پالیسی اور سعودی عرب کی طرف جھکاؤ اْس وقت سے بڑھ رہا تھا جب فروری میں اس وقت امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن نے تہران کو تنبیہ کی تھی۔سعودی عرب میں اس اہم تبدیلی پر جوش و خروش پایا گیا اور تعلقات میں بہتری کا خیر مقدم کیا گیا۔ براک اوبامہ کے دور میں سعودی مخالف شعیہ طاقت کے ساتھ جوہری معاہدے اور یمن میں جاری جنگ میں شمولیت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ تھے۔وزیر دفاع اور ایران مخالف جیمز میٹس نے اپنے ریاض کے دورہ پر نئی پالیسی کو مزید تقویت دی اور بدھ کو بھی ایک بار پھر ایسا ہی ہوا۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’ایران کی شرانگیزی کے خلاف سعودی عرب کی مزاحمت کو مضبوط کیا جائے‘ اور اپنے سعودی میزبان کی طرح ’خطے میں جہاں بھی بدامنی ہے‘ اس کے پیچھے ایران کا ہاتھ دیکھا۔