ان دنوں سروے کا دور ہے اور ہر الیکشن سے قبل کسی نہ کسی طرح کاسروے ایک عام بات بن گئی ہے مگر حالیہ دنوں میں کئے گئے دوسروے ان دنو ں کافی چرچامیں ہیں ایک امریکی ریسرچ سنٹر پیوز کا سروے اوردوسرے موڈیز کا ہندوستانی بینکوں کی ریٹنگ کا سروے ۔
جس پر پہلے سروے کے بعد یونین منسٹر روی شنکر پرساد او ردوسرے یعنی موڈیز کے اعلان کے بعد مرکزی فینانس منسٹر ارون جیٹلی حسب عادت پریس کانفرنسوں کے ذریعہ اس کو مرکز میں زیراقتدار نریندر مودی حکومت کی کامیابیوں سے جوڑنے کاکام کررہے ہیں حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔ہماری بینکوں نے 6 لاکھ پچاس ہزارکروڑ کے این پی ایس یعنی وہ قرض جو بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو دئے گیاہے اور وہ ادا نہیں کرسکے اور پیسے ڈوب گئے ہیں ۔جس کے بعد دولاکھ 35ہزار کروڑ روپئے حکومت نے بینکوں کو دئے جو ہمارے ٹیکس سے حاصل کی جانیو الی رقم ہے‘ تاکہ بینکو ں میں استحکام واپس لوٹ سکے۔
نوٹ بندی کے بعد بینکوں میں جمع کئے جانے والے پیسوں کے بعد موڈیز نے ہماری کریڈیٹ ریٹنگ کو اوپر کردیا ہے۔ اگر کل کے روز فینانس منسٹر ارون جیٹلی چار لاکھ ہزار کروڑ روپئے بینکو ں کو مزید فراہم کریں گے تو موڈیز کریڈیٹ ریٹنگ میں مزید اضافہ کردیں گے اور اس کاراست تعلق بینکوں کی صحت سے ہے۔ اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے غلط فیصلوں سے جو نقصانا ت کاسامنا کرنا پڑا ہے وہ اب فائدہ میں بدل گئے ہیں۔
پچھلے سال 2016میں موڈیز نے ہمارے بینکوں کی ریٹنگ کو نیچے کردیاتھا جس کے بعد حکومت نے سنگا پور کی ایک مشہور صحافی کے ذریعہ موڈیز سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیاتھا او رلابی بنانے کاکام بھی کیاگیاتھا۔پیوزریسرچ انسٹیٹوٹ کے سروے جس میں2400لوگوں سے بات کی اور جنوری سے لیکر فبروری کے درمیان میںیہ سروے کیاگیا جب نریندر مودی نے نوٹ بندی کے بعد پچاس دنوں کی عوام سے مہلت مانگی تھی۔پیوز کے سروے کے مطابق جہاں پر دس میں سے نو لوگ چاہتے ہیں کہ مودی ان کے پسندیدہ لیڈر ہیں مگر اسی میں یہ بھی کہاگیاہے کہ دس میں سے پانچ لوگ کہتے ہیںیہ پر فوج کی حکمرانی آجائے او ریہ خطرناک بات ہے ۔
اس پر کوئی بات نہیں ہوتی اور صرف پیوز یا پھر موڈیز کے سروے کی بات کرتے ہیں جیسا کہ ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا مل گیا ہے اور اسی پر ڈھونڈرا پیٹا جارہا ہے ۔ جبکہ کئی سروے ہوئے ہیں جس میں زمینی حالات کو بہتر انداز میں خلاصہ کیاگیا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک سروے کی رپورٹ ہے 73کروڑ بیس لاکھ لوگوں کے پاس بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے جوکہ وائر ایڈ کی رپورٹ ہے۔گلوبا ل ہنگر انڈکس کی رپورٹ ہے کہ ہندوستان کا مقام سویں نمبر پر ہے۔
ہم نارتھ کوریا سے بھی پیچھے ہیں اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔ایک او رتنظیم رپورٹرس وائتھ اؤٹ بارڈرس جس کے تحت ورلڈ پریس فریڈم انڈکس بنایا ہے جس میں ہمارا درجہ 136واں ہے جہاں پر صحافت کو آزادی دی گئی ہے۔ یوم صحافت کی آزادی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی کے ٹوئٹ سے صحافی کو حوصلہ تو بڑھا ہے مگر ایک سوال بہت زیادہ بے چین کررہا ہے کہ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں بے شمار صحافیو ں ہوئے قتل اور نریندر مودی پر تنقید کرنے والے صحافیو ں کوغدار قراردینے کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی خاموش ہیں۔
ان دنوں پدماوتی فلم کے متعلق کافی پروپگنڈہ کیاجارہا ہے اور کھلے عام دھمکیاں دی جارہی ہیں تو ایسی دھمکیوں کے خلاف وزیراعظم نریندر مودی خاموش کیوں ہیں۔ اگر واقعہ میں وہ صحافت کا احترام کرتا ہے اور صحافتی ادارو ں کو خود مختار بنانے چاہتے ہیں تو وہ میڈیا کے سامنے کیوں نہیںآتے ‘ آخر انہیں پریس کانفرنس کرنے یا پھر راست انٹرویو دینے میں ہچکچا ہٹ کیوں محسوس ہورہی ہے۔ پیش ہے دی وائیر کا مکمل ویڈیو جس میں ممتاز صحافی ونود دواء ان تمام باتوں پر روشنی ڈالی ہے