ڈنمارک کی حکومت کا نیا قانون ،مسلم بچوں کو کرسمس کے بارے میں جاننا لازمی ہوگا ۔

کاپن ہیگن : ڈنمارک کی حکومت ان ۲۵؍ علاقوں میں ایک نیا قانون متعارف کروانے جارہی ہے جہاں یا تو کم آمدنی والے لوگ ہیں یا پھر وہ مسلمانوں کی کثرت والے علاقے ہیں ۔ڈنمارک کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ اپنی مرضی سے ملک کے دیگر افراد کے ساتھ نہیں گھل مل جاتے تو پھر انہیں اس پر مجبور کیا جائے گا ۔

نیو یارک ٹائمز کی خبر کے مطابق اس نئے قانون کے تحت ان علاقوں یا گیٹو انکلیوز میں رہنے والے خاندانوں سے ان کے بچوں کو ہر ہفتہ میں ۲۵؍ گھنٹے الگ کیا جائے گا ۔اس قانون کے تحت جن بچوں کو اپنے والدین سے الگ کیا جائے گا ان کی عمر کا آغاز ایک سال سے ہوگا اور انہیں اس دوران ڈنمارک اقدار ، جن میں کرسمس ، ایسٹر او رڈینش زبان کے بارے میں سکھایا جائے گا ۔

امریکی جریدہ نیویارک ٹائمز کی جانب سے یہ خبر شائع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے ۔بعض لوگ سوال کررہے ہیں کہ کیا امریکہ کے بعد اب ڈنمارک بھی بچوں کو ان کے والدین سے الگ کرے گا ؟

حامد شادی نے اس نئے قانون کے بارے میں ٹوئیٹر پر لکھاہے کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران یہ سب پریشان کن آرٹیکل ہے ۔ڈنمارک شہریوں میں جوزیادہ تر مسلمان ہیں فرق کرنے کے لئے درجہ بندی کا نظام بنایا ہے ۔

ٹوئیٹر کے ایک صارف نے کہا کہ ڈنمارک مسلمانوں کو تعلیم نو کے مراکز میں ۲۵؍ گھنٹے گذارنے پر مجبور کرہا ہے تا کہ وہ کرسمس او رایسٹر کے بارے میں سیکھیں ۔جب کہ صرف تین فیصد ڈنمارک کے لوگ ہر ہفتہ گرجا گھر جاتے ہیں ۔

اگر آپ مسلمانوں کے حاوی ہونے سے پریشان ہیں تو آپ اپنی تعلیم نو کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے ۔اس قبل ڈنمارک حکومت نے مسلم خواتین پر عوامی مقامات پر سارا چہرہ ڈھکنے پر پابندی عائد کی ہے ۔