گراوٹ کا احساس
تجارتی جنگ کے خدشات سے دیگر ایشیائی ممالک بھی متاثر
حیدرآباد /29 جون ( سیاست ڈاٹ کام ) ایک ایسے وقت جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے کابینی رفقاء و پارٹی قائدین اقتصادی شعبہ میں بڑے کارنامہ انجام دینے کے دعوی کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف امریکی ڈالر کے مقابلہ ہندوستانی روپئے کی قدر میں غیرمعمولی گراوٹ درج کی جارہی ہے ۔ جمعرات کو شائد ہندوستانی معشیت کا بُرا دن تھا جب ڈالر کے مقابلہ ہندوستانی روپئے کی قدر میں اب تک کی سب سے بڑی کمی دیکھی گئی جبکہ مارکٹ نے فی الوقت ہندوستان کی تیزی سے گرتی کرنسی کے بارے میں پیش قیاسی کی بلکہ وہ 70-71 سطح کو بھی پار کریگی۔ قومی و عالمی میڈیا میں ڈالرس کے مقابلہ ہندوستانی روپئے کی قدر میں گراوٹ پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ خام تیل کی بڑھتی قیمتوں ، تجارتی جنگ کے بڑھتے خدشات اور جائیداد مالکین کو دیئے گئے امریکی قرض کی وصولی کی شرح میں اضافہ ایسی وجوہات ہیں جس سے نہ صرف ہندوستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ آرہی ہے بلکہ بیشتر ایشیائی ممالک کی کرنسی کی قدر بھی متاثر ہوئی ہے ۔ علاوہ ازیں تیل کی قیمتوں میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال نے بھی درآمداتی معیشتوں کے خسارے اور پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے ۔ جہاں تک تجارتی جنگ کے خدشات کا سوال ہے ان خدشات نے ممبئی سے لیکر جکارتہ اور جکارتہ سے لیکر منیلا کی مارکٹوں تک کو پریشان کر رکھا ہے ۔ جس کے پیش نظر مرکزی بنکوں کو بیرون ملک جمع کی جانے والی کرنسی کی شرح میں اضافہ کرتے ہوئے لیکویڈیٹی کو سخت کرنے میں مجبور ہونا پڑا۔ ساتھ ہی کرنسی کی قدر میں کمی اور افراط سے نمٹا جاسکے۔ آپ کو بتادیں کہ جمعرات کو ہندوستانی روپئے کی قدر ڈالر کے مقابل خطرناک حد تک گرکر 69.09 ہوگئی تھی ۔ لیکن ریزرو بینک آف انڈیا ( آر بی آئی ) کی بالواسطہ مداخلت کے بعد اس میں کچھ استحکام آیا اور وہ 68.79 کی سطح پر آگئی ۔ آر بی آئی نے امریکی ڈالر کے مقابلہ ہندوستان روپئے کی قدر میں گراوٹ کو دیکھتے ہوئے ڈالرس فروخت کرنے کی ہدایت دی ۔ روپئے کی قدر میں گراوٹ اور افراط زدہ درآمدی بل بشمول مالی موقف میں خلل یا رکاوٹ کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نے صورتحال مزید سنگین بنادی ۔ ویسے بھی جیسے ہی تجارتی جنگ کے خدشات میں اضافہ ہونے لگا جمعرات کو جنوب مشرقی ایشیائی مارکٹوں میں مندی دیکھی گئی ۔