مخالف امتیازی سلوک کمیٹی کے وائس چیرمن نے کہاکہ مذہبی طبقات کے ساتھ’ مملکت کے دشمن‘ جیسا رویہ اختیار کیاجاتا ہے
قابل بھروسہ رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدے کی مخالف امتیازی سلوک کمیٹی کے وائس چیرمن نے کہاکہ چین کے مغربی حصہ میں ’’مخالف شدت پسندی سنٹرس‘‘ میں اندازے کے مطابق ایک ملین سے زائد ایغور مسلمانو ں محروس رکھاگیا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=zsNtkkr2ySo
جنیو کی سیوئز سیٹی میں حالیہ سالوں میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کی جانب سے ہٹانے اور نسلی امتیاز کے متعلق چین کے ریکارڈ کی جانچ کے حوالے سے جمعہ کے روز جی میک دگل نے یہ تبصرہ کیا ہے۔
میک دگل کے دوروزہ سنوائی کے آغاز پر کہاکہ مذہبی ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کی حراست کے متعلق مل رہی اطلاعات سے ’’گہری تشویش ‘‘ ہورہی ہے‘ جو ’’ایغور( زنچیانگ) ایک خود مختار علاقے’حقوق سے عاری ‘ علاقے میں تبدیل کردیاگیا ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ مزید دو ملین لوگوں کو جبری طور پر خودساختہ دوبارہ تعلیم کے کیمپوں میں سیاسی اور کلچرل بھرتی کیاجارہا ہے‘‘۔
پچاس چینی عہدیداروں پر مشتمل وفد نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔چین نے کہاکہ زنچیانگ میں باغیوں او رعلیحدگی پسندوں کے حملوں کے سنگین خطرات لاحق ہیں اس کے علاوہ ایغور مسلم اقلیت جو علاقے کو اپنا آبائی مقام مانتے ہیں اورمذہبی ہان چینی اکثریت کے درمیان میں کشیدگی میں بھی اضافہ درپیش ہے۔قبل ازیں جمعہ کیر وز چینی سفیر یو جیان ہو نے جنیوا میں اقوام متحدہ سے کہاکہ یہ تمام کے ساتھ مساوات اور یگانت کے لئے کام کیاجارہا ہے۔
پیر کے روز بھی اجلاس کے جاری رکھنے کی توقع ہے۔اپنے تبصرے میں میک دگل نے کہاکہ ان میں سے زیادہ ترلوگوں پر کوئی الزام عائد نہیں کیاگیا ہے اور نہ ہی ان پر عدالتی کاروائی کی جارہی ہے۔
وہیں میک دگل نے اپنے کسی ذرائع کا ذکر نہیں جہاں سے انہوں نے تحویل میں رکھے جانے کے اعداد وشمار حاصل کئے ہیں تاہم دیگر گروپس اس ضمن میں کم اعداد پیش کررہے ہیں۔
رپورٹس میں حراست میں رکھے جانے والے مراکز کی تفصیلا ت کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک سو سے زائد طلبہ جو مصر او رترکی سے تعلیم کی تکمیل کے بعد چین واپس لوٹے ہیں انہیں بھی گرفتار کرلیاگیا ہے۔ میک دگل نے کہاکہ حلال کھانے ‘ داڑھی رکھنے اور سر پراسکارف پہننے والوں کے ساتھ سختی برتی جارہی ہے۔