اگرچہ کہ چین کے مغربی علاقے زنچیانگ تک یہ محدود ہے ‘ ماؤ دور کے بعد سے یہ ملک کا سب سے بڑا صفائی پروگرام ہے‘ اور اس کے بڑھتح اثر کو بین الاقوامی تنقیدوں کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔
اس کا مقصد عقیدہ اسلام سے انہیں دور کیاجائے۔
عبدالسلام موہمت جس کی عمر 41سال ہے نے کہاکہ پولیس نے انہیں ایک تدفین کے موقع پر قرآن کی تلاوت کرنے پر گرفتار کرلیا۔ان کے قریب کے کیمپ میں دو ماہ بعد انہیں اور مزیدتیس گرفتار لوگوں اپنی ماضی کی زندگی کو مسترد کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔
انہوں نے کہاکہ وہ ان کے ساتھ خاموشی کے ساتھ چلے گئے۔انہوں نے یا دکرتے ہوئے کہاکہ’’ یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں شدت پسندی کی وجہہ سے محروس رکھا گیا ہے۔
بلکہ وہ جگہ ہے جہاں پرنسل تبدیل کرنے والے جذبات کو فروغ دیا جارہا ہے او رایغور شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔یہ کیمپ ہوٹان کے باہر ہے صحرائے تاکلامان کے اویسیس ٹاؤن میں ہے ‘ جہاں پر ایسے سینکڑوں کیمپ ہیں جو پچھلے کچھ سالوں میں تعمیر کئے گئے ہیں۔
اس مہم کا حصہ ہے جس کے ذریعہ چین کے ہزاروں مسلمانو کو ہفتوں ‘ مہینوں محروس رکھا کہ ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے‘ عام طور پر ان کے خلاف کوئی مجرمانہ مقدمہ درج نہیں کیاجاتا ۔
اگرچہ کہ چین کے مغربی علاقے زنچیانگ تک یہ محدود ہے ‘ ماؤ دور کے بعد سے یہ ملک کا سب سے بڑا صفائی پروگرام ہے‘ اور اس کے بڑھتح اثر کو بین الاقوامی تنقیدوں کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔
چین کی کو صدیوں سے یہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی تعلیما ت پر امتناعات عائد کرے او رزنچیانگ پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھے‘ یہ وہ علاقہ ہے جو الاسکا سے بڑا ہے جہاں کی آبادی 24ملین مسلمان مذہبی اقلیتی گروپس پر مشتمل ہے۔
ان میں زیادہ تر ایغور ہیں جن کا مذہب‘زبان اور تہذیب چین کے حکمرانوں کے خلاف چلائی گئی تحریک آزادی کی تاریخ سے منسلک ہے۔سال2014میں مخالف حکومت پرتشدد حملوں کے بعد زی جین پینگ سربراہ کمیونسٹ پارٹی نے خاموشی کے ساتھ ایغور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی شروعات او رمنظم انداز میں ایک ایسی مہم کی شروعات کرتے ہوئے ایغور اور دیگر اقلیتوں کو فرض شناس ثابت کرنے کے لئے ان کی پارٹی کا حمایتی بننے پر مجبور کیا۔
پچھلے ماہ جنیوا میں اقوام متحدہ کے پینل نے اس قسم کے کیمپس کو اپنی شدید تنقید کانشانہ بنایاتھا۔ جس پر زی انتظامیہ نے اس کو’’ تعلیم نو کے احیاء کے مراکز کے طور پر پیش کیاتھا‘‘۔