واشنگٹن : انسانی حقوق کی ۱۶؍ بڑی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ چین نے تقریبا ۱۰؍ لاکھ ایغور نسل اور سنکیانگ کے دوسرے مسلمانو ں کو بڑے پیمانے پر جس طرح حراستی کیمپوں میں رکھا ہے اس کی بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ ان تنظیموں نے انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کونسل پر زور دیا کہ وہ ایک قرار داد منظور کرے جس کے تحت سنکیانگ میں انسانی حقو ق کی صورت حال معلوم کرنے کیلئے بین الاقوامی مشن کا قیام عمل میں لایاجائے ۔
کونسل اپنا اجلاس آئندہ ما منعقد کررہی ہے ۔ یہ مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب نسلی امتیازی کے خاتمہ سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ۔ انٹر نیشنل فارہیومن رائٹس نامی گروپ سے منسلک سارہ بروکس نے اسے ایک اہٹ موڑقرار دیا ہے ۔ سارہ بروکس نے کہا کہ ایک ایسامرحلہ آیاتھا جب چینی حکومت او رجنیوا بھیجے جانے والے اس کے وفد کو کمیٹی کے ماہرین کے سامنے حقیقی معنوں میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہیں سخت سوالوں کے جوابات دینے پڑے ۔ سارہ نے کہا کہ چین اب یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس نے یغور اور دوسرے ترک نژاد مسلمانوں کو سیاسی او رپیشہ وارانہ تعلیم کے کیمپوں میں رکھا ہوا ہے ۔
ہیومن رائٹس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کین راتھ کا کہنا ہے کہ وہ انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں کے توڑ کی کوشش کررہی ہے ، جب کہ ان کا یہ دعوی غلط ہے ۔ کین راتھ کے مطابق حراست میں رکھے جانے کی اس کارروائی کا مقصد ، ترک نژاد مسلمانوں کی نسلی او رمذہبی شناختوں کو مٹانا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں بند لوگوں کو زبردستی مخصوص سیاسی نظریات کی تعلیم دی جاتی ہے او ران پر اپنے عقائد ترک کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔اور ان سے بد سلوکی کی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ حراست میں لئے گئے لوگوں کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ منقطع کردیاگیا ہے ۔ چین نے ان محروسین جن کی تعداد ۱۰؍ لاکھ سے زائد ہے انہیں اسلام ترک کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
کین راتھ نے مزید کہا کہ سچ کو سامنے لانے کیلئے اقوام متحدہ کے ایک وفد کو سنکیانگ بھیجا جائے ۔