بیجنگ:چین نے اپنے مسلم شہریوں سے کہاہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کی سختی کے ساتھ مخالفت کریں اور چینی اقدار کے حامل سوشلزم کاانتخاب کریں۔بدامنی کا شکار مسلم اکثریتی صوبہ زنجیانگ میں انتہائی سخت اقدامات کرتے ہوئے سکیورٹی میں غیرمعمولی اضافہ کردیا گیا ہے ۔ دسویں نیشنل کانگریس آف چائنیز مسلمس سے خطا ب کرتے ہوئے مذہبی امور کے سربراہ وانگ ژوآن نے کہاکہ مسلمانوں کے اعتقاداور ان کی روایات کا احترام کیاجاتا ہے لیکن سیاست ‘ قانون اور تعلیم کے شعبہ میں مذہبی مداخلت ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہاکہ نئی مساجد میں غیر ملکی طرز تعمیر کی جھلک کے بجائے چین کی شناخت اور قومی خصوصیت کو اجاگر کیاجانا چاہئے۔انہوں نے گذشتہ پانچ سال کے دوران اسلامک اسوسیشن آف چین کے کام کی بھی ستائش کی۔ان کا یہ تبصرہ ایسے وقت سامنے آیا جبکہ زنجیانگ میں انتہائی سخت قوانین نافذ کئے گئے ہیں اور یہاں کے عوام کو پاسپورٹ حوالے کرنے کی ہدایت دی تاکہ وہ دوسرے ممالک کو نقل مقام نہ کرسکیں۔حکومت نے کہاکہ ایسے افراد جو پاسپورٹ متعلقہ پولیس اسٹیشن میں جمع نہ کرائیں اور انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیاجائے تو اس کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوگی۔ ژنجیانگ میں مذہبی کمیٹیاں بھی قائم کی گئی ہیں تاکہ مذہبی رسومات پر نظر رکھی جاسکے۔اس کے علاوہ مقامی افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ مذہبی سرگرمیوں کے بارے میں کمیٹی کو مطلع کریں۔ژنجیانگ میں پاسپورٹ کا حصول انتہائی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔حکومت کو علاقے میں دہشت گردی کے بڑھتا اندیشہ ہے ۔ اس لئے یہاں انسداد دہشت گردی مہم میں تیزی لائی گئی ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق کئی یغور مسلمان شام میں ائی ایس ائی ایس کے ساتھ ملکر لڑائی میں شریک ہیں۔ چین کو یہ اندیشہ ہے کہ یہ دہشت گرد ملک واپس ائیں تو یہاں صوبہ میں مسائل کھڑے کرسکتے ہیں۔قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ژنجیانگ پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور افغانستان سرحد سے متصل ہے۔یہاں گذشتہ 6سال سے بدامنی پائی جاتی ہے۔ گذشتہ چند سال کے دوران دہشت گردحملے بھی ہوئے اور کے لئے ترکستان اسلامک مومنٹ کو مورد الزام ٹھرایاگیا ہے۔