!ہم کوڈر ہے اوروں کو ہمت
ریاست میں درج فہرست قبائل کی تعداد تقریباً 9.38 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے اس کے باوجود قبائیلیوں کو حکومت کے بے شمار مراعات حاصل ہیں ۔ حال ہی میں ریاستی وزیرقبائیلی بہبود اجمیرا چندولال کی صدارت میں قبائیلی مشاورتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں قبائیلیوں کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں کے علاوہ دیگر شعبوں میں 9.5 فیصد تحفظات فراہم کرنے سے متعلق ایک قرارداد پیش کی گئی ۔ حالانکہ قبائیلیوں کو پہلے ہی 6 فیصد تحفظات حاصل ہیں اور بقول اجمیر چندولال کے چیف منسٹر کے سی آر ان تحفظات کو 6 فیصد سے بڑھا کر 12 فیصد کرنے کے خواہاں ہے ۔ مسٹر اجمیرا چندولال قابل تعریف ہیں کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے قبائیلیوں کیلئے تحفظات کا نہ صرف مطالبہ کرتے ہیں بلکہ قرارداد بھی منظور کراتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں اپنے مفادات سے کہیں زیادہ اپنی برادری کے مفادت عزیز ہیں ایسے میں کیا جماعت کے قائدین کو بھی کم از کم وزیرقبائیلی بہبود سے سبق نہیں سیکھنا چاہئے ، اکثر لوگوں کایہی کہنا ہیکہ جب تک شخصی مفادات عزیز رہیں گے تب تک ملی مفادات کو پس پشت ڈالدیا جائے گا لیکن ایسا ایک طویل مدت تک نہیں چل سکے گا ۔
حیدرآباد ۔ 28 ۔ جون ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) چیف منسٹر مسٹر کے چندرا شیکھر راؤ کے اقتدار میں آنے کے باوجود اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ ان کی تعلیمی حالت میں بہتری آتی نہ ہی ان کی معاشی پسماندگی دور ہوسکی ۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب میں کسی قسم کا اضافہ بھی نہیں ہوا ۔ آندھرائی لابی نے ملت کی ہمدردی کا دم بھرنے والوں کے ساتھ ملکر جن لاکھوں کروڑ مالیتی اوقافی جائیدادوں کو ہڑپ لیا تھا ان جائیداوں میں سے ایک فیصد حصہ بھی مسلمانوں کو واپس نہیں مل سکا ۔ حالانکہ کے سی آر نے علحدہ ریاست تلنگانہ کیلئے چلائی گئی تحریک کے دوران اور پھر علحدہ ریاست کے اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران بار بار اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں انے پر ان کی حکومت مسلمانوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں 12 فیصد تحفظات کی فراہمی یقینی بنائے گی ۔ اوقافی جائیدادوں کے قابضین سے چھڑلیا جائے گا ۔ غرض مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کے اقدامات کئے جائیں گے ۔ چیف منسٹر کا کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا ۔ مسلمانوں سے اس طرح کی ناانصافی پر کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہر کسی کو اپنے مفادات کی فکر لاحق ہے ۔ مسلمانوں کی ہمدردی اور ان کی ہر سطح پر قیادت و نمائندگی کا دعوی کرنے والوں کی زبانوں پر بھی تالے لگے ہوئے ہیں ۔ کسی میں یہ ہمیت نہیں کہ حکومت سے یہ سوال کرے کہ آخر مسلمانوں کو تعلیم اور ملازمتوں میں 12 فیصد تحفظات کب دیئے جائیں گے جبکہ کے چندرشیکھر راو نے اسمبلی انتخابات کے دوران اعلان کیا تھا کہ اقتدار کے ملنے کے اندرون 4 ماہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں گے ۔ مسلمانوں میں چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کے وعدوں سے کہیں زیادہ جماعت اور اس کے قائدین کی حاموشی پر بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔ تقاریب ، جلسوں اور نجی محفلوں میں لوگ ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے ہیں کہ آخر جماعت کے ایم پی ، ارکان اسمبلی اور ارکان قانون ساز کونسل کیوں خاموش ہیں اگر کے سی آر 12 فیصد تحفظات پر عمل آوری کو اپنے وعدہ کے مطابق اقتدار ملنے کے اندرون 4 ماہ تعین بناتے تھے آج لاکھوں مسلم بچوں کو پیشہ وارانہ کورسس میں داخلے ملتے ۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب میں اضافہ کی راہ ہموار ہوتی ۔ شہر اور اضلاع کے مسلماونں میں یہ چہ میگوئیاں بھی عام ہوگئیں ہیں کہ جماعت اور اس کے قائدین بلا چوں و چرا ہر مسئلہ پر حکومت کو ہاں میں ہاں ملاتے جارہے ہیں ایسا لگتا ہیکہ انہیں مسلمانوں کے نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی فکر دامن گیر ہے اگر حقیقت میں وہ ایسا کررہے ہیں تو ملت کی یہ سب سے بڑی بدخدمتی ہوگی ۔ چیف منسٹر کے دعوت افطار کے بارے میں بھی مسلمانوں کا یہی خیال ہیکہ اس طرح کی دعوتوں ، 200 مساجد میں افطار کے اہتمام سے دو لاکھ غریب مسلم خاندانوں میں کپڑوں کی تقسیم یا پھر کسی سیاسی قائد کے منہ میں کھجور ٹھونسنے سے مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوتے مسائل تو عملی اقدامات سے حل ہوتے ہیں ۔ لیکن جماعت کے قائدین کے تعلق سے عام تاثر یہی ہیکہ وہ بھی ٹی آر ایس کے ایک اہم حصہ کے طور پر کام کررہی ہے ان میں اور ٹی آر ایس قائدین میں صرف اتنا فرق ہیکہ وہ پارٹی میں رہ کر چیف منسٹر کی زبان سے ادا ہونے والے ہر ہر لفظ کی تائید کرتے ہیں اور پارلیمنٹ و اسمبلی میں ملت کی ہمدردی کا دم بھرنے والے پارٹی کے باہر رہ کر کے سی آر اور ان کی حکومت کے فیصلہ کی تائید و حمایت پر مجبور ہیں ۔ ان لوگوں کی زبانوں سے کے سی آر کے یا حکومت پر تنقیدی الفاظ ہی نہیں نکلتے اب تو شہر اور ریاست میں یہ سوال بھی اُٹھ رہا ہیکہ آخر قائدین کی خاموشی کی وجہ کیا ہے ؟ ان کی اپنی کیا کمزوریاں اور مفادات ہیں جس کے باعث وہ مسلمانوں کی موثر نمائندگی سے عاجز ہیں تام تاثر یہی پایا جاتا ہیکہ جماعت کے قائدین اور کے سی آر کے درمیان خوشگوار تعلقات ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعلقات ایک سیاسی مجبوری اور مسلمانوں سے ناانصافی پر خاموشی ، خفیہ ثمرات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے مفادات کو پامال کرتے ہوئے کیا جارہا ہے ۔ اگر یہ خوشگوار تعلقات دوطرفہ ہوتے تو مسلمانوں کے کئی مسائل حل ہوجاتے چونکہ یہ تعلقات ایک طرح کی مجبوری اور معاہدہ کے مترادف ہے میں مسلمانوں کو صرف وعدوں کے کھلونوں سے بہلایا جائے گا ۔