چھ ماہ کا انتظار‘ ٹھاکروں کے زیر اثر علاقے سے دلت کی برات گذری

سابق میں کبھی بھی ٹھاکروں کے زیر اثر گاؤں میں کسی دلت کی برات نہیں نکالی گئی تھی ‘ دولہن کا تعلق بھی دلت سماج سے ہے اور اسی گاؤں کی رہنی والی ہے
کاس گنج۔اتوار کے رات کو اترپردیش کے کاس گنج سے پندرہ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع نظام پور گاؤں نکالی گئی شادی کی برات میں موجودتین سو لوگوں کے درمیان سے یہ آوازیں آرہی تھیں کہ ’’ واہ مزہ آگیا ‘ آج ہمیں فخر ہورہا ہے‘‘۔۔ براتیوں کا ایسا کہنے کی ایک وجہہ بھی ہے۔

سابق میں کبھی بھی ٹھاکروں کے زیر اثر گاؤں میں کسی دلت کی برات نہیں نکالی گئی تھی ‘ دولہن کا تعلق بھی دلت سماج سے ہے اور اسی گاؤں کی رہنی والی ہے۔برات میں جہاں پر بالی ووڈ کے گیت بج رہے تھے وہیں دوسو کے قریب پولیس جوان ہاتھوں میں لاٹھی ‘ بندوق اور آنسو گیس کے شل لئے برات کے ساتھ چل رہے تھے۔

نظام آباد سے ایک گھنٹہ کے فاصلے پر واقع ضلع ہتھاراس کے بسائی گاؤں کے ساکن 27سالہ سنجے جاتھوبالآخر دلہن شیتل کے گھر برات لے کر پہنچ ہی گیا۔دونوں کے گھر والوں کی چھ ماہ کے دوران بارہا ملاقات اور آلہ آباد ہائی کورٹ کی انتظامیہ کو ہدایت کے یہ بعد یہ سب ممکن ہوسکا۔

شیتل کے بھائی بیٹو جادھو نے کہاکہ ’’ ہم نے کبھی نہیں سونچاتھا کہ ہم اس حد تک جائیں گے۔ یہ ڈسمبر میں اس وقت شروع ہوا جب ٹھاکروں نے ہماری تجویز پر اعتراض جتایا۔ میں اور سنجے نے بہت سارے منتظمین سے ملاقات کی ‘ مگر وہ کام نہیں آیا۔

یہاں تک کہ ہائی کورٹ بھی اس مسلئے کے حل سے قاصر رہا‘‘۔انہوں نے کہاکہ شادی اپریل میں ہونی تھی ‘ مگر ٹھاکروں نے انتظامیہ کو یہ سمجھنے میں کامیاب رہے کہ شیتل اس وقت نابالغ تھی۔

بیٹو نے کہاکہ ’’ بالآخر بات چیت اس نتیجے پر پہنچی کے 5جولائی کے روز میری بہن بالغ ہوجائے گی‘ حالانکہ اس کی عمر 21سال کی ہے ۔

تاہم ہم نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کردی‘‘۔ بیٹو اپنے گھر میں لگے شامیانہ میں کھڑے ہوکرکام کرنے والوں کو بلبس لگانے کی ہدایتیں دے رہاتھا۔ بیٹو خوش تھا مگر وہ خدشات میں گھیرا ہوا دیکھائی دے رہا تھا۔ اس نے کہاکہ ’’ ابھی تو کچھ نہیں ہوگا‘ لیکن ڈر ہے کہ بعد میں ٹھاکر لوگ ہمارے بائیکاٹ نہ کردیں ‘‘۔اس کے ڈر کی وجہہ ہے‘ یہاں پرگاؤں میں صرف جاتھوکے گاؤں میں محض چھ گھر ہیں۔

سابق میں ایک ٹھاکر ایک ٹھاکر جس کا ذاتی بورویل ہے نے اس کی زراعی زمین پر پانی کی سپلائی روک دی تھی۔ شیتل خوش لگ رہی تھی ‘ اس نے کہاکہ’’ بالآخر شادی انجام پارہی ہے‘‘۔

اتوار کی صبح بسائی گاؤں میں ایک شخص نے انڈین ایکسپریس سے پوچھا کہ ’’ کس سے ملنا ہے ڈی ایم سے؟ سنجے نے کہاکہ ’’ڈی ایم‘‘ کا مطلب ’’ڈھولک ماسٹر‘‘ اور وضاحت کی کہ اس کی ٹیچر نے اس ڈھولک میں مہارت حاصل کرنے کے بعداس کانام ’’ڈی ایم‘‘ رکھا ہے۔

ہاتھوں میں مہندی لگائے سنجے نے کہاکہ کم سے کم پچاس گاڑیاں اس کی شادی کی برات کاحصہ رہیں گی۔ ہم نے کافی مشقت کی ۔

یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے۔ یوپی کے ہر حصہ میںیہ ہورہا ہے۔

ذات کے نام پر کچھ بھی ہورہا ہے‘‘سنجے گرام پنچایت کاایک رکن ہے اور اس کا مقصد مجوزہ الیکشن میں پردھان کے سیٹ جیتنا ہے۔ اس نے دعوی کیا ہے کہ گاؤں کے ٹھاکر بھی اس جشن کا حصہ بنیں گے۔

تاہم جب انڈین ایکسپریس نے گاؤں کے ٹھاکر سماج کے لوگوں سے بسائی میں بات کی تو ‘ انہوں نے کہاکہ حالانکہ انہیں دعوت نامہ ملا ہے‘ وہ اس شادی میں شریک نہیں ہونگے کیونکہ یہ ان کے ’’وقار ‘‘کا معاملہ ہے۔

اتوار کی دوپہر میں نظام آباد میں250پولیس جوانوں کی تعیناتی محض اس لئے کی گئی تھی تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو ٹالا جاسکے۔ایس ایچ او کاس گنج سٹی گویندرا گوتم نے کہاکہ ’’ سب پرامن رہے گا ‘ سکیورٹی سخت ہے‘‘۔نظام آباد میں تقریبا5:43بجے کے قریب کاروں پر مشتمل برات پہنچی

۔ سنجے پر بگی پر سوار دلہن کے گھر کی طرف بڑھ رہاتھا۔میڈیا کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے اس نے کہاکہ ’’ میں حیران ہوں کہ ہم اکیس ویں صدی میں ہے اور ہمیں گھوڑے سواری کے لئے چھ ماہ تک کا انتظار کرنا پڑا۔ یہ میرا حق ہے اور میں نے اس کو حاصل کیاہے۔انتظامیہ نے بہتر انتظامات کئے ہیں‘‘