اترپردیش۔آر ایل ڈی کی امیدوار تبسم حسن کی کیرانہ میں بڑی کامیابی کے ساتھ ہی مغربی اترپردیش میں 2019کے جنرل الیکشن کی تیاریو ں جیسا ماحول پیدا ہوگیا ہے کیونکہ ا س جیت نے پارٹی کے روایتی ووٹرس جو جاٹ طبقے پر مشتمل ہیں متحدہ اپوزیشن کی وجہہ سے واپس مل گیا ہے ۔
جب سے آر ایل ڈی کی ایک مسل امیدوار کو بی جے پی کی مارینگاکا سنگھ پر ضمنی انتخابات میں منتخب کیاگیا ہے ‘ اس کے بعد سے ان کا اصل مقصد جاٹ او رمسلم اتحاد کے ذریعہ برسراقتدار حکومت کو شکست فاش کرنا ہوگیاہے۔ آر ایل ڈی کی جیت کا اوسط بتاتا ہے کہ ایس پی او ر بی ایس پی کے ساتھ آنے سے یہ بی جے پی سے بڑے ہوگئے ہیں۔
سال2014کے عام انتخابات اور 2017کے اسمبلی الیکشن میں آر ایل ڈی نے جاٹ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ مگر وہ اس موقف میں نہیں تھی کہ خود کو جاٹ کا اکیلا رہنما ثابت کرسکے۔
اب کیرانہ نے کی جیت نے آر ایل ڈی کو اس سے آگے کردیاہے۔ نومنتخبہ کیرانہ رکن پارلیمنٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد تبسم نے ایک روزنامہ کو شاملی کے آر ایل ڈی دفتر سے واپسی کے دوران کہاکہ ’’ ایس پی او ربی ایس پی کے علاوہ میں اپنے کامیابی کا سہرہ چودھری چرن سنگھ کی سیاسی سونچ کے سر باندھتی ہوں‘‘۔
انہوں نے کہاکہ ’’ یہ وہی مقام ہے جہا ں سے بی جے پی نے اپنے سیاسی سفر کی شروعات کرتے ہوئے مرکز تک پہنچی ہے اور 2013میں پڑوس کے مظفر نگر میں فرقہ وارنہ فسادات کے بعدریاست میں اقتدار حاصل کیاہے‘ اب میری جیت اس با ت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی کی طاقتور فورس ختم ہے ۔ میری جیت اترپردیش کے ووٹرس کے لئے ایک پیغام ہے‘‘۔
تبسم نے کہاکہ ’’ بی ایس پی کا کیڈر یہاں پر ہمارے ساتھ تھا۔ انہوں نے کیرانہ میں بی جے پی کو ہرانے کے لئے اپنی بھرپور حمایت کی ہے۔
میں دل کی گہراہیو ں سے بی ایس پی سربراہ مایاوتی جی کا شکریہ ادا کرتی ہوں‘‘۔آر ایل ڈی دفتر پر جمعرات کی شام کو جب تبسم پہنچی تووہاں پر بڑی تعداد میں جاٹ او رمسلمان ایک ساتھ کھڑے دیکھائی دئے۔اوریہ مغربی اترپردیش میں چودھری چرن سنگھ کی سیاسی سونچ کا ہے ایک بڑا سوال ہے۔
شاملی کے آر ایل ڈی دفتر کے سامنے ایک میڈیکل شاپ چلانے والے سنجیو سنگھ کہاکہ جاٹ ووٹرس سے مضبوطی کے ساتھ تبسم کا ساتھ دیا ہے۔
انہو ں نے مزیدکہاکہ ’’ ایک طویل مدت کے بعد جا ٹ مسلم اور ایس سی( دلت) ووٹرس میں اتنا بڑے اتحاد دیکھنے کو ملا ہے۔
اس طرح کا اتحاد صرف چرن سنگھ جی کے دور میں دیکھنے کو ملاتھا‘‘۔کیرانہ کی جیت کے بعد اپوزیشن کیمپ میںآر ایل ڈی کا قد اور اونچا ہوگیا ہے اور وہ مغربی اترپردیش میں سیٹوں کے معاملے میں دباؤ کے موقف میں آگئی ہے۔