یاترا میں مقامی علماء کے ساتھ ضلع کے مختلف مذہبی لوگوں نے بھی شرکت کی ‘ یاتراکوشہید اسمارک پر ہی روک دیاگیا اور صدرجمہوریہ کے نام میمورنڈم کووہیں لیاگیا
اگرہ۔ گذشتہ ماہ مالک میں اتردیش کی سیاست میں ترنگایاترا موضوع بیث رہا‘ کچھ غیر مسلم تنظیموں نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ ترنگا یاترا کے نام پر ہندو اور مسلمانوں میں مذہبی فساد کرانے کی کوشش کی گئی‘ اس فساد میں ایک غیر مسلم نوجوان کی موت ہوئی اور کئی ہندو مسلم زخمی بھی ہوئے‘ کروڑوں کا مالی نقصان ہوا ‘ ملک اور اترپردیش کے موجودہ حالات کو دیکھتے او رامن وچین کو قائم کرنے کی پہل تاج نگری میں کی گئی‘ یہ پہل سماجی کارکن سبانہ کھنڈویلوال اور تنظیم علماء اہل سنت کے سکریٹری مفتی مدثر خان نے کی ‘ اس پہل اقدام امن کا پیغام ترنگا یاترا رہی ۔
اس یاترا کا افتتاح سنجے پیلس واقع شہید اسمارک سے ہوکر کلکٹری پر اس کا اختتام ہونا تھا‘ اس یاترا میں مقامی علماء کے ساتھ ضلع کے مختلف مذہبی لوگوں نے بھی شرکت کی ‘ لیکن اس یاترا کو شہید اسمارک پر ہی روک دیاگیا او رصدر جمہوریہ ہند کے نام میمورنڈم کو وہیں لیاگیا۔
واضح ہوکہ اس ترنگا یاترا سے ضلع انتظامیہ کو ڈرتھا کہ ضلع کے امن کو خطرہ نہ ہو‘ اس وجہہ سے اس یاترا کو روکنے کے لئے تمام کوشش کی گئی تھی‘ شہیداسمارک کو چھاونی میں تبدیل کردیاگیا تھا ‘ لیکن جس امن کے ساتھ علماء نے اپنا پیغام دیا ‘ اس کو سن کر موجودہ فورس کو اس بات کا علم ہوگیا کہ یہ لوگ فساد کرنے والے نییں بلکہ امن پسند تحریک کو قائم کرنے والے ہیں ‘ یہ یاترا شہید اسمارک سے کلکٹر یٹ تک جانی تھی‘ لیکن انتظامیہ کی بات کو سمجھ کر اس یاترا کو شہید اسمارک تک محددو کردیاگیا‘ یہیں پر صدرجمہوریہ کے نام میمورنڈم دیاگیا‘ جس کو انتظامیہ کے افسر نے قبول کیا‘ شہید اسمارک میں عوام کو خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکن شبانہ نے کہاکہ موجودہ وقت میں مسلمانوں کے دل میں دہشت ہے پورے ملک میں کسی نہ کسی وجہہ سے مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے‘ کچھ غیر مسلم تنظیموں نے ترنگا یاترا کے نام پر ایک نیا شگوفہ نکالا ہے جس سے وہ مسلمانوں میں دہشت پھیلاکر ان کو الجھاسکیں‘جس سے مسلمانوں میں ڈرپیدا کیاجارہا ہے ‘ یہ ملک کے امن کو خطرہ ہے۔مسلمان امن پسند ہے ‘ مسلمانوں کو ظلم کو برداشت کرنے اور امن قائم کرنے کی تربیت حاصل ہے ۔
مسلمان امن کا دشمن نہیں ہے‘ اس میں امن کی مثال پیش کرنے کا جذبہ ہے‘ مسلمانوں کی وفاداری خون میں ہے اس کی وفاداری پر شک نہیں کیاجاسکتا۔ مفتی مدثر خان قادری نے کہاکہ ملک کو آزادی میں اپنی شہادت دینے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ سیاسی لیڈر ملک میں ہندو مسلمان کی سیاست کریں گے‘
اگر اس بات کا علم ہوجاتاتو ملک کی آزادی میں مجاہد ہندو اور مسلمان ساتھ نہیں ہوتے ‘ یہ ملک آزاد نہیں ہوپاتا‘ موجودہ وقت کی سیاست میں انگریزی سیاست کا عکس نظر آرہا ہے‘انگریزوں کو اس کا علم تھاکہ اگر وہ ہندو مسلمان ایک ہوگئے تو ملک سے ان کو جانا ہوگا‘ اس وجہہ سے انگریزں و نے ہندو اور مسلمانوں میں اتحادپیدا ہونے نہیں دیا‘ اس کے بعد بھی ہمارے بزرگوں نے ہند و مسلمانوں میں اتحاد پیدا کیا اس کا اثر یہ ہوا کہ انگریزوں کو ملک سے باہر جانا پڑا ‘ ملک کے حالات اس وقت اسی طرح کے ہیں‘ سیاسی لیڈروں کا مقصد ہے کہ ہندو اور مسلمانوں میں اتحاد نے ہو جس سے ان کی سیاست چلتی رہی ہے ‘
لیکن اب ہندوو اور مسلمانوں اس بات کو سمجھ گیا ہے‘ دونوں امن وچین چاہتے ہیں اسی وجہہ سے تنظیم علماء اہل سنت اور سنر چنا تنظیم نے امن کا پیغام ترنگا ترا کا انعقاد کیا ہے ہم علماء پور کوشش کریں گے ملک کے ہرحصہ میں ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ امن وچین قائم ہو۔
حافظ ممتاز قادری نے کہاکہ میں اپنے ان ہندو بھائیوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ترنگا ہمارا غرور ہے‘ اس پر اگر کوئی سیاست کرتا ہے تو اس کو سمجھا کر ترنگا کے احترام کو برقرار کریں‘ ہم علماء آج عوام کے ساتھ ترنگا یاترا میں شامل ہیں تو اس میں ہمارا مقصد بس اتنا ہے کہ ملک کسی ایک کا نہیں ملک سبھی کا ہے ‘ یہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی کا برابر حق ہے‘ سبھی مذہب کے لوگوں نے آزادی کے وقت اپنی شہادت دی تھی‘ ہم گاندھی اور عبدالکلام کو ماننے والے ہیں ‘ آج ملک کی عوام گاندھی کے راستہ کی جگہ ان لوگوں کے راستے پر چلنا پسند کررہی ہے جن کا کردار جنگ آزادی میں عوام کے نظر نہیں آیا‘
ملک ہمارا ہے‘ پوری دنیاجانتی ہے کہ ہمارے ملک نے امن کا پیغام دیا ہے‘ لیکن وجودہ حالات کو دیکھا جائے تو ہم گاندھی اور عبدالکلام آزاد کے ملک کی حفاظت کر پارہے ہیں؟ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہوگا ہمارامقصد ترنگا یاترا سے پورے ملک کو امن کا پیغام دینا ہے۔
حاجی پٹھان نے میمورنڈم پر کہاکہ ہم نے صدر جمہوریہ سے 41باتوں کا مطالبہ کیا جس میں خاص طور پر کاس گنج معاملہ کی تحقیقات کے ساتھ ان تمام مسائل کا مطالبہ کیاگیا ہے جس سے مسلمانوں کے دل سے دہشت نکل سکے ۔ اس موقع پر قاری نسیم‘پروین جہاں‘ عارف ‘ منظور احمد‘ شبنم‘ ابرار ‘ انس مرزا ‘ محسن خان دیگر لوگ موجود تھے۔
You must be logged in to post a comment.