پٹرول کی قیمت کے مسئلہ پر عوام سے مودی حکومت کی دھوکہ دہی

چار سال میں عوام سے 10 لاکھ کروڑ کی لوٹ

من مانی اضافہ سے عوام بدحال، قیمت میں کمی حکومت کا اختیار، ماہرین کی رائے

حیدرآباد ۔ 29 ۔ مئی (سیاست نیوز) پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نے عام آدمی کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے لیکن حکومت اضافہ کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ پٹرول انڈسٹریز سے وابستہ ماہرین کا کہناہے کہ قیمتوں میں اضافہ کے مسئلہ پر مرکزی حکومت عوام کو دھوکہ دے رہی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی کے ذریعہ حکومت نے 10 لاکھ کروڑ کا منافع حاصل کیا ہے ۔ پٹرول کی قیمت کو بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمت سے مربوط کیا جاتا ہے لیکن نریندر مودی حکومت نے کبھی بھی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت کی پرواہ کئے بغیر قیمت میں مسلسل اضافہ کو ترجیح دی ہے۔ ماہرین کے مطابق تیل کی قیمتوں کا موجودہ بحران ملک کی تاریخ کی بدترین صورتحال ہے ۔ عام طور پر خام تیل کی قیمتوں کا اندازہ کرتے ہوئے 15 دن قبل ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمت طئے کی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں جو پیمانہ استعمال ہوتا ہے ، اسے مارکٹ ڈیٹرمائینڈ پرائز میکانزم (PDPM) کہا جاتا ہے لیکن افسوس کہ این ڈی اے حکومت نے یہ سسٹم منسٹر ڈیٹرمائینڈ پرائیز میکانزم میں تبدیل ہوچکا ہے یعنی مرکزی وزیر جب چاہیں تیل کی قیمت میں اضافہ کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ عالمی مارکٹ میں خام تیل کی قیمت سے اضافہ کا کوئی تعلق نہیں۔ تیل کی قیمت میں کب اور کتنا اضافہ کیا جائے اس کا فیصلہ وزارت پٹرولیم کے وزیر کی جانب سے کیا جارہا ہے ۔ عوام کو قیمتوں کے معاملہ میں جس انداز سے دھوکہ دیا گیا ، اس کی مثال جون 2008 ہے۔ اس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 148 ڈالر فی بیارل تھی جو اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ لیکن اس وقت ہندوستان میں پٹرول کی قیمت 52 روپئے فی لیٹر تھی ۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد 2014 ء سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں گراوٹ آئی ہے اور فی بیارل خام تیل 30 ڈالر تک پہنچ لیکن مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی ۔ قیمتوں میں کمی کے برخلاف 2014 اور 2016 کے درمیان ایکسائز ڈیوٹی میں 9 بار اضافہ کیا گیا جس سے پٹرول کی قیمت 82 تا 85 روپئے تک فی لیٹر پہنچ چکی ہے۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں گراوٹ سے حکومت کو کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ دنیا بھر میں پٹرول کی قیمت کا انحصار عالمی منڈی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی حکومت عوام کی جیب کو غیر قانونی طریقہ سے لوٹ رہی ہے۔ ملک میں تیل کی قیمتوں کا میکانزم سیاسی اثر کا شکار ہوچکا ہے۔ گجرات اسمبلی کے انتخابات کے وقت مرکزی حکومت نے پٹرول کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اسی طرح 24 اپریل تا 14 مئی کرناٹک انتخابات کے پیش نظر قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ الیکشن کے فوری بعد اضافہ کا دور شروع ہوچکا ہے اور اگر یہی تسلسل جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ پٹرول کی قیمت 100 روپئے فی لیٹر تک پہنچ جائے گی۔ ماہرین نے بتایا کہ عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے گزشتہ 4 برسوں میں 10 لاکھ کروڑ روپ ئے کا منافع حاصل کیا گیا۔ سابق مرکزی وزیر فینانس پی چدمبرم نے دعویٰ کیا کہ اگر مرکزی حکومت چاہے تو ٹیکسیس میں کمی کے ذریعہ فی لیٹر 25 روپئے کی کمی کرسکتی ہے۔ مرکزی حکومت نے چدمبرم کے اس دعویٰ کا ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔ آئیل انڈسٹریز سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ عام انتخابات تک کسی قیمت کو برقرار رکھتے ہوئے مرکزی حکومت اپنے نقصانات کی پابجائی کرے گی ۔ اطلاعات کے متعلق عوامی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی حکومتیں ٹیکسوں میں کمی کے ذریعہ عوام کو راحت پہنچانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ یہ محض ایک انتخابی حربہ رہے گا۔ عام آدمی جو مسلسل اضافہ سے پریشان ہے اس کے روز مرہ کے اخراجات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ تیل کی قیمت میں اضافہ کا راست اثر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔ مہنگائی کے سبب عوام کی معاشی صورتحال ابتر ہوچکی ہے۔ عوام کو شکایت ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی مرکز کے اس فیصلہ کے خلاف آواز بلند کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں متحدہ طور پر ایجی ٹیشن کا آغاز کریں تو مرکز کو ٹیکسوں میں کمی کیلئے مجبور ہونا پڑے گا۔