پولیس کا تعصبانہ رویہ: کاس گنج واقعہ میں صرف مسلمانو ں کے خلاف کارروائی 

لکھنؤ: اتر پردیش کے کاس گنج قصبہ میں ا س سال یوم جمہوریہ کے موقع پرہوئے فرقہ وارانہ وفسادات کے بارے میں فائنڈنگ فیکٹ ٹیم نے اہم انکشافات کئے ہیں۔ اس رپورٹ میں یوگی حکومت پر ایف آئی آر درج کرنے سے لے کر تحقیقات میں غفلت برتنے کے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ صحافی اجیت ساہی نے اس رپورٹ میں اب تک کی پولیس تحقیقات پر بہت سنگین الزامات لگائے ہیں۔ساہی کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے کے وقت سے ہی پولیس نے ملزمین کی حمایت کی ۔ اس تشدد میں ایک شخص کی موت واقع ہوگئی تھی ۔او رتقریبا ۳۰؍ مسلمانو ں کو گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ واضح رہے کہ یہ تشدد اس وقت کیا گیا تھا جب مسلم نوجوانوں کا ایک گروپ یوم جمہوریہ پر وگرام منعقد کررہا تھا اسی وقت موٹر سائیکل پر سوار کچھ ہندو شر پسند لڑکے آئے جئے شری رام کے نعرہ لگا کر ماحول کشیدہ کرنے کی کوشش کئے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس واقعہ کیلئے دو طرح کے ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔

ایک ہندؤوں کے خلاف تشدد کیلئے اور دوسری مسلمانو ں کے خلاف تشدد کیلئے ۔بعد میں ہندوؤں کو چھوڑ دیا گیا لیکن مسلمانوں کو جیل میں محروس رکھا گیا ۔ انو کلپ چوہان نامی ایک نوجوان شخص نے اس موٹر سائیکل ریلی کی قیادت کی تھی ۔پولیس کے سچ پر پردہ ڈالتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ چوہان اس وقت موجود نہیں تھا لیکن دوسرے دن چندن گپتا کے آخری رسوم میں شریک تھا ۔اس قبل چوہان نے مسلمانوں کے خلاف زہر تشدد پر مبنی ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کاسگنج صرف ہندوؤں کا علاقہ ہے ۔مسلمان اس علاقہ میں داخل نہ ہوں۔فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو یہ بھی پتہ چلا کہ ریلی شامل لڑکے ہندو وا ہنی کا ممبر ہیں ۔جو وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کی تنظیم ہے ۔

انوکلپ چوہان اوردیگر دو ملزمین نے پولیس کے سامنے خود سپردگی کی جنہیں کچھ ہی وقت میں ضمانت مل گئی او روہ رہا ہوگئے ۔کیا کاسگنج کا واقعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے تھا ؟ اس بارے میں قنوج کے ایس پی سنیل کمار نے صحافیو ں سے کہا کہ اس واقعہ کی مکمل سازش کچھ ناراض مقامی لیڈروں نے رچی تھی ۔ ان لیڈروں کی مقامی انتظامیہ سے دشمنی تھی کیونکہ اس کے غیر قانونی ریت کھدائی پرروک لگائی تھی ۔