نئی دہلی : گذشتہ دنوں علی گڑھ پولیس کی جانب سے کئے مبینہ انکاؤنٹر میں ہلاک دو نوجوانوں نوشاد او رمستقیم کی صدا اب دہلی تک پہنچ چکی ہے ۔ یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ نے ان کی ماؤں کو پریس کلب دہلی تک لانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے ۔ اور کس طرح سے ان نوجوانوں کا پولیس نے ان کا انکاؤنٹر کیا اس پر سے پردہ اٹھایا ۔ پریس کلب میں مستقیم کے معصوم بچوں کے ساتھ پہنچی ان کی والدہ نے میڈیا کے سامنے اپنی روداد پیش کی ۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا مستقیم کھا ناکھا رہا تھا ۔
اچانک ہمارے گھر کے دروازہ کے سامنے پولیس کی گاڑی آئی اور پولیس والوں نے مستقیم کو ساتھ چلنے کو کہا ۔ مستقیم نے کہا کہ کھانا پورا ہونے کے بعد چلتا ہوں ۔ لیکن پولیس نے ایک نہ سنی اور اسے ویسے ہی آدھے کھانے پر سے لے کر چلی گئیں ۔ پھر بعد میں ا س کی لاش ہی دیکھنے کو ملی ۔ ‘‘ مستقیم کی والدہ نے مزید کہا کہ ہم وزیر اعظم نریندر مودی سے انصاف کی فریاد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں او رہمارے بچوں کو پولیس دہشت گرد بتا رہی ہے جب کہ پولیس سے زیادہ چور او رکون ہوسکتا ہے جس نے ہمارے بچوں مار کر ہمیں ہمارے گھر میں ہی مقید کردیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ مستقیم کی بیوی عدت میں ہے اور کوئی غیر مرد اس کے سامنے نہیں جاناچاہئے مگر اس کے کمرہ میں ایک پولیس جوان کو متعین کردیا گیا ہے تا کہ اس سے کوئی بات نہ کرسکے ۔
نوشاد کی والدہ نے کہا کہ پولیس والوں نے ان کے پڑوسیو ں کا لایا ہوا کھانا تک کھانے نہیں دیا جس کے سبب وہ دو دن بھوکے رہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ یونین صدر مشکور عثمانی نے کہا کہ یوگی حکومت میں پولیس آئین کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہیں ۔ او راسی لئے ہم پر فرضی مقدمہ درج کروایا گیا تاکہ ہم ان مظلوموں کی آواز بن نہ سکیں ۔
یونائیٹیڈ اگینست ہیٹ کے رکن ندیم خا ن نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایس ایس پی علی گڑھ او رایس او اترولی کو فوری طور پر برخواست کر کے پورے معاملہ کی ہائی کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کروائی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ہیو من رائٹس کمیشن او رسپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیاگیا ہے تا کہ ہلاک شدگان کے اہل خانہ کو انصاف دلایا جائے ۔