پندرہ اگست کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ۔۔شکیل شمسی 

اس ملک کو آزادہوئے ۷۱؍ سال ہوگئے ، لیکن کبھی کسی حکومت نے یہ حکم نہیں دیا کہ پندرہ اگست کو مندروں ، مسجدوں ، گردواروں ، گرجاگھروں ، خانقاہو ں اور امام باڑوں پر ترنگا لہرایا جائے ۔ حالانکہ ملک کا پرچم کہیں بھی لہرایا جاسکتا ہے اور کوئی بھی ہندوستانی اس کو لہرانے سے انکار نہیں کرے گا ۔مگر یوپی حکومت کے زیر سایہ چلنے والی شیعہ وقف بورڈ کی جانب سے پندرہ اگست سے دو دن قبل ایک متنازعہ حکم جاری کیا او رکہا کہ شیعوں کے تمام اوقاف ، امام باڑوں ، مدرسوں ، مسجدوں ، اور دینی مدارس میں پندرہ اگست کو ترنگا پرچم لہرایا جانا چاہئے ۔او رجو شخص پرچم لہراتے وقت بھارت ماتا کی جئے کے نعرہ نہیں لگا ئے گا اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی ۔ ہمیں حیرانی ہے کہ یہ شرط صرف شیعوں پر کیوں عائد کی گئی ؟ ملک میں اتنے فرقے ہیں ان پر حکومت نے اس طرح کی شرط کیوں نہیں لگائی ؟ اگر بی جے پی والے چاہتے ہیں کہ سارے ملک کے مذہبی مقامات پر ترنگا پرچم لہرایا جائے تو وہ اس بارے میں حکومت ہند سے ایسا آئین کیوں نہیں بناتے جس کا اطلاق تمام فرقوں پر ہو ؟

صرف شیعوں کی عبادتگاہ پر ترنگا لہرانے کی شرط کیو ں رکھی گئی ؟ کیوں شیعوں سے وفاداری کا ثبوت مانگا جارہا ہے ؟ جب کہ سچ تویہ ہے کہ یہ پابندی شیعہ فرقہ کے اس رویہ کے باوجود عائد کی جارہی ہے کہ شیعہ حضرات نے جب بھی کوئی بڑی ریلی کی تواس میں ترنگے پرچم جابجا نظرآتا ہے ۔

واضح رہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے جب شیعہ وقف بورڈ کے چیر مین وسیم رضوی اکھلیش یادو او راعظم خان کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے تھے تب ایک لاکھ سے زیادہ شیعوں نے وسیم رضوی کو وقف بورڈ سے ہٹائے جانے کے سلسلے میں مظاہرہ کیا تھا اس میں سوائے ترنگے پرچم کے دوسرا کوئی پرچم نہیں تھا ۔اس لئے شیعہ متولیوں او رمنتظموں کو وسیم رضوی کی طرف سے ترنگا لہرانے کا حکم ملنا صدی کے سب سے بڑے مذاق کے سوا کچھ نہیں ۔