پشاور حملوں کے بعد لاہور حملہ دہشت گردی کی بدترین مثال : امریکہ

ایسٹر کے موقع پر عیسائیوں کو نشانہ بنانا حیوانیت، پارک بن گیا مقتل ، ہندوستانی امریکیوں کی جانب سے بھی مذمت
واشنگٹن ۔ 29 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کی بارسوخ شخصیات، مذہبی قائدین اور ہندوستانی نژاد امریکی شہریوں نے پاکستان کے شہر لاہور میں ہوئے خودکش دھماکوں کی زبردست مذمت کی جس میں 72 افراد ہلاک ہوگئے۔ خاتون کانگریسی گریس مینگ نے کہا کہ لاہور میں جو دھماکے کئے گئے وہ حیوانیت اور بربریت کا ننگا ناچ ہے جس کی وہ سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ 2014ء میں پشاور کے فوجی اسکول میں کئے گئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہ ایک اور دہشت گردانہ حملہ کی بدترین مثال ہے جنہوں نے بھی یہ حملے کئے ہیں وہ بزدل ہیں اور توقع ہیکہ ان ظالموں کو بعجلت ممکنہ کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ امریکہ پاکستان کے اس سخت آزمائشی دور میں اس کا ساتھ دے گا اور ملزمین کی گرفتاری کیلئے ہر ممکنہ تعاون کرنا امریکہ کی اولین ترجیح ہے۔ اسی دوران سینیئر راب پورٹمین نے کہا کہ ایسٹر تہوار کے موقع پر عیسائیوں کو نشانہ بنانے کا مقصد یہی تھا کہ عیسائی برادری میں خوف و دہشت کی لہر دوڑ جائے اور شاید یہی مقصد اسلامی عسکریت پسندوں کا ہے۔ اسلامی دہشت گردی سے اب نہ صرف عیسائی بلکہ دیگر مذاہب کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں جبکہ امریکہ نے ہمیشہ مذہبی آزادی کی تائید کی ہے اور یہاں ہر ایک کو اپنے اپنے پسند کے مذاہب کی پیروی کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ لہٰذا یہ ایک فطری بات ہے کہ امریکہ ایسی مذہبی برادری کے ساتھ اپنی تمام تر ہمدردی روا رکھے گا جسے اسلامی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آرچ بشپ جوزف ایف کرٹنر نے بھی اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کیلئے مختص کئے گئے پلے گراونڈ کو مقتل میں تبدیل کردینے کا منظر ناقابل برداشت تھا۔ جوزف کرٹنر یو ایس کانفرنس آف کیتھولک بشاپس کے صدر ہیں، انہوں نے کیتھولک بشاپس کانفرنس برائے پاکستان کے صدر جوزف کوٹس کو ایک مکتوب تحریر کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ اسی طرح ہندو امریکن فاونڈیشن (HAF) کے قائدین نے بھی لاہور حملوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ حملوں میں جاں بحق افراد کے غمگین رشتہ داروں کے ساتھ وہ اظہارتعزیت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ بھگوان انہیں اتنا بڑا دکھ جھیلنے کی طاقت دے۔ ایچ اے ایف کے سینئر ڈائرکٹر اور ہیومن رائٹس فیلو سیمر کالرا نے کہا کہ پاکستان نے اب تک داخلی طور پر سرگرم دہشت گردوں کی بیخ کنی کیلئے کوئی موثر اقدامات نہیں کئے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے حملے ہورہے ہیں اور انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔ دہشت گرد مذہبی اقلیتوں کو تر نوالہ سمجھتے ہوئے انہیں نشانہ بنارہے ہیں جس سے نہ صرف مخصوص اقلیتیں بلکہ پاکستان کی پوری عوام متاثر ہورہی ہے۔ دہشت گرد ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن انسانوں کو ہلاک کرکے آخر وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر حملہ اب روز کا معمول بن جائے؟ پاکستان نے اپنی فوجی طاقت میں جو اضافہ کر رکھا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس طاقت کا استعمال افغانستان اور ہندوستان کے خلاف کیا جائے گا جبکہ داخلی طور پر پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کے قلع قمع کے لئے نہ تو فوجی کوئی کارروائی کررہے ہیں اور نہ ہی فوجی ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔