جمعہ کے روز بھیم آرمی نے دہلی کے جنتر منتر پر ہونکار ریالی بھی منعقدکی تاکہ مرکز پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ عام زمرے میں شامل معاشی پسماندہ طبقات کے لئے مقر رکردہ اپنے دس فیصد کوٹہ کے فیصلے کو واپس لے
نئی دہلی۔ لوک سبھا الیکشن سے کچھ ہفتوں قبل بی ایس پی کے لئے یہ مایوسی کا بات ہوسکتا ہے کہ مذکورہ بھیم آرمی اس بات کی منصوبہ سازی کررہے ہیں وہ اپنے خود کے امیدوار کھڑا یا پھر انہیں مدد فراہم کرے جو ایس پی ‘ بی ایس کا سیٹوں میں الائنس کا وہاں حصہ نہیں ہیں‘جہاں پریوپی میں ’’ گٹھ بندھن کافی مضبوط ‘‘ نہیں ہے۔درایں اثناء بھیم آرمی کے صدر چندرشیکھر آزاد نے اس بات کی بھی توثیق کی ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف اس مرتبہ الیکشن لڑیں گے۔
مذکورہ تنظیم ایک اور بی جے پی کی بڑی لیڈر سمرتی ایرانی کے خلاف بھی اپنا امیدوار کھڑا کرے گی۔
اس بات کا خلاصہ چندرشیکھر نے انڈین ایکسپرس سے کیاہے۔ بھیم آرمی کو مغربی اترپردیش میں بڑی حمایت حاصل ہے ‘ بالخصوص نوجوانوں میں ‘ یہ فیصلے ایس پی ‘ بی ایس پی اتحاد میں مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
بھیم آرمی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ امیدوار کھڑا کریں گے اور بہوجن سماج کے امیدواروں کی حمایت کری ں گے ‘بڑے پیمانے پر دلتوں‘ مسلمانوں اور پسماندہ طبقات میں جو ایس پی ‘ بی ایس پی کا ووٹ بینک ہے اور جس کوو ہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دیوبند سے حراست میں لے جانے کے بعدمیرٹھ کے اس اسپتال میں شریک تھے وہاں سے ڈسچارج کئے جانے کے بعد چندرشیکھر نے کہاکہ’’ ہمارا مقصد بی جے پی کوشکست دینا ہے۔ اسی وجہہ سے میں مودی کے خلاف الیکشن لڑرہاہوں۔
ہم نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ سمریتی ایرانی یا پھر کسی دوسرے حلقے سے کس کو الیکشن میں اتاراجائے۔ مگر ہم جمعہ کی ریالی میں( جنتر منتر پر ) کچھ اہم فیصلے لیں گے۔
ایک روز قبل ہی کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اسپتال میں ان سے ملاقات کی تھی‘ جس کے بعد سیاسی حلقوں میں بے شمار قیاس آرائیوں شروع ہوگئیں۔
تاہم چندرشیکھر آزاد نے کسی بھی اپوزیشن جماعت سے اتحاد کی بات کو مسترد کردیا۔سال.2017میں سہارنپور میں فسادبرپاکرنے کے لئے الزام میں مختلف دفعات کے تحت چندرشیکھر راؤ کو جیل میں بند کردیاگیاتھا۔
بی ایس پی کا بھیم آرمی کے متعلق کہنا ہے کہ وہ ’’ بی جے پی کی بی ٹیم ‘‘ ہے اس کے باوجود چندرشیکھر آزاد نے مایاوتی کی بطور وزیراعظم امیدوار حمایت کی ہے۔
جمعہ کے روز بھیم آرمی نے دہلی کے جنتر منتر پر ہونکار ریالی بھی منعقدکی تاکہ مرکز پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ عام زمرے میں شامل معاشی پسماندہ طبقات کے لئے مقر رکردہ اپنے دس فیصد کوٹہ کے فیصلے کو واپس لے