حیدرآباد۔ شہر حیدرآباد کی ترقی بالخصوص پرانے شہر کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے ماضی میں بھی بہت سارے اعلانات کئے گئے ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے غیرعلاقائی حکمرانوں نے پرانے شہر کو پوری طرح نذ ر انداز بھی کیا ۔ حالانکہ اس وقت بھی اور آج بھی پرانے شہر کی ذمہ دار سیاسی جماعتوں کا برسراقتدار سیاسی جماعت کے قریبی رفقاء میں شمار تھا۔
مگر اس وقت بھی پرانے شہر کی ترقی کے لئے صرف اعلانات سے کام لیاجاتا تھا او رآج بھی اعلانات کے ذریعہ کاغذوں پر ہی پرانے شہر کی ترقی کو دیکھایاجارہا ہے۔ اس کی ایک مثال سال2009میں سولہ کروڑ کی لاگت سے تیار کئے گئے ’ربر ڈیم ‘ کی ہے۔مذکورہ ربر ڈیم موسی ندی کے اندر تعمیر کیاگیاتھا ۔ ہائی کورٹ تاسالار جنگ میوزیم ایک کیلومیٹر کے فاصلہ پر موسی کے اندر یا ربر ڈیم کی تعمیرعمل میں ائی تھی۔
اس وقت کے چیف منسٹر انجہانی وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے اس ربر ڈیم کے تعمیر کاموں کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا۔ حسب روایت سیاسی قائدین نے بینڈ باجا اور مرفاؤں کی گونج میں اس کام کا سنگ بنیاد رکھا مگر سولہ کروڑ کی لاگت سے تیار کیاگیا یہ ربر ڈیم سولہ سالوں تک بھی نہیں چل سکا۔یہ ربر ڈیم ہائی کورٹ کے روبرو80میٹر لمبا اور سالار جنگ میوزیم کے روبر و73میٹر لمبا تعمیرکیاگیا تھا ۔
اس کا مقصد موسی ندی میں بہنے والے آلودہ پانی کی صفائی تھی ۔ محکمہ بلدیہ گریٹر حیدرآباد کے بعد اس کام کی تکمیل کے ذمہ داری ایچ ایم ڈی اے نے لی تھی مگر وہ بھی اس کام کو پورا نہیں کرسکا۔ بعدازاں بلدی گریٹر حیدرآباد نے جے این این یو آر ایم کے تحت اس پراجکٹ کو پائے تکمیل پہنچانے کی کوشش کی تھی ۔
دراصل مذکورہ پراجکٹ کی شروعات موسی ندی کو خوبصورت بنانے اور ندی کے پانی کے بہاؤ میں تیزی لانے کے مقصد سے اس ربر ڈیم پراجکٹ کی شروعات کی گئی تھی ۔
ٹیپو خان برج سے پراناپل‘ چادرگھاٹ تک ندی میں خوبصورتی لانے کے ایک بڑے منصوبے کے تحت اس پراجکٹ کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔پراجکٹ کے تحت عنبر پیٹ سوریج ٹریٹمنڈ پلانٹ سے دو ملین گیلن پانی لاکر یہاں پر اس پانی کی صفائی بھی پراجکٹ کے منصوبے میں شامل تھی ۔
قبل ازیں محکمہ بلدیہ گریٹر حیدرآباد نے2006میں موسی ندی کو خوبصورت بنانے کے نام پر رامنتا پور میں 93ایکڑ ازرخیز زمین حاصل کی تھی او راوپل میں600ایکڑ اراضی لی تھی اس میں سے 109ایکڑ کے قریب میٹرو ٹرین پراجکٹ کے حوالے کردی گئی ہے۔ بہر حال جس ربر ڈیم پراجکٹ کی 2009میں دھوم دھام کے ساتھ شروعات عمل میں ائی تھی اب اس کے اثار کہیں پہر بھی دیکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
تقریبا گیارہ سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد نہ تو ربر ڈیم کے اطراف واکناف میں کہیں ہریالی دیکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی آلودہ پانی کی صفائی کا کوئی کام وہاں پر کیاجارہا ہے ۔
چہل قدمی کے لئے پارک او رواکرس زون کا خواب بھی پورا نہیں ہوا ۔کروڑ ہا روپیوں کی لاگت سے شروع کیا گیا ’ربر ڈیم‘عوام کے پیسوں سے شروع کیاگیا ایک پراجکٹ ہے اور پرانے شہر کی ترقی کے لئے معلنہ دوہزا رکروڑ روپئے کا حصہ بھی ہے مگر ربر ڈیم کی زبو ں حالی حکومت کے ساتھ متعلقہ محکموں کے ذمہ داران کی نیک نیتی پر بھی ایک بڑا سوا ل ہے۔
متعلقہ محکموں کے ذمہ داران کے ساتھ پراجکٹ کے تکمیل کرنے والی کمپنی کو بھی کام میں تاخیر ‘پراجکٹ کی ناکامی اور خراب میٹریل کے استعمال پر جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کی عوام کو ترقی کے نام دئے جانے والے دھوکے سے محفوظ رکھا جاسکے۔
You must be logged in to post a comment.