راولپنڈی۔مقدس ماہ صیام میں یہاں کے سنسان سڑکوں پر رات ایک بجے کے قریب سے سحری کی تیاری کے لئے لوگوں کو اٹھانے کاکام لال حسین اپنا ڈرم بجاکر کرتے ہیں۔وہ اپنا ڈھول بجاکر کہتے ہیں کہ ’’ سحری کرواٹھو‘‘۔حسین پچھلے 35سالوں سے ہررمضان میں کئی میل کا پیدل سفر طئے کرتے ہوئے یہ خدمات انجام دیتے ہیں اور شہر کے قدیم گھر میں واپس چلے جاتے ہیں۔
مائیں اور بچے اپنے گھر کی کھڑکیو ں سے سحری والے کا نظارہ کرتے ہوئے ان کے ڈھول کی آواز پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں وہیں جو مرد سڑکوں پر ان سے ملاقات کرتے ہیں اس خدمت کے عوض کچھ رقم انہیں شکریہ کے طور پرپیش کرتے ہیں۔مگر یہ قدیم روایتی تہذیب کا حصہ اب پاکستان میں کم ہی نظر آرہا ہے۔ کروڑ ہا لوگ پاکستان میں ماہ صیام کے دوران روزہ رکھتے ہیں ۔
طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک کچھ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں اور نماز مغرب سے قبل افطار کے ذریعہ روزہ کھولتے ہیں۔طلوع آفتاب سے قبل جو کھانے کے قواعد ہیں اس کو سحری کھاجاتا ہے۔
سحری کے لئے ڈھول بجاکر جاگنے کی روایت کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے کیونکہ زیادہ تر پاکستانیو ں کے پاس اب اسمار ٹ فون ہے ۔اب لوگ عام طور پر سحری کے وقت کے تعین کے لئے اپنے فون میں الارم‘ یااعدادی گھڑی یا پھر عوامی کے اعلانات جو لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ ہوتے ہر منحصر ہوگئے ہیں ۔
پاکستان کے قومی ادارے برائے کلچر اینڈ ہرٹیج کے سابق ڈائرکٹر یو مفتی نے کہاکہ’’ ضرورتیں جدیدیت کی ماں ہیں۔ اب جب ڈھول بجانے والوں کی ضرورت نہیں رہے گی تو یہ ختم ہوجائیں گے‘‘۔سارے ملک کے شہروں او رگاؤں میں رمضان کے دوران سحری کے وقت ہرسال کچھ سحری والی دیکھائی دیتے ہیں۔
حسین نے پانچ ملین شہریوں پر مشتمل شہری کا چکر کاٹنے کے دوران اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ بڑی مشکل سے روالپنڈی میں ایک درجن ہی سحری والے باقی ہونگے۔ ہر گلی میں ڈھول بجانے والے تھے مگر ان میں سے کئی جاچکے ہیں ۔نوجوان نسل دوسرا پیشہ اختیا ر کرچکی ہے‘‘۔
یہاں تک کہ ا ن کے ایک ساتھی سحری والے ریٹائر ہوتا ہے یا اس روایت کو ترک کردیتا ہے کہ 66سالہ دوسرا ساتھی ہائی پاٹائیٹس سی کے مرض کا شکار تھا مگر زیادہ وقت تک اس کام کو جاری رکھنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ علاقے کے لوگ ان کے جذبے سے کافی متاثر ہوئے۔
یاسر بھٹ نے کہاکہ ’’ ہمارے اباؤ اجداد سے چل یہ کلچر سے ہم آج بھی اس انداز میں دلچسپی رکھتے ہیں‘‘۔
پاکستان میں جہاں برقی سربراہی کا مسئلہ ہے حسین کہتے ہیں یہ مکینوں کے لئے زیادہ بھروسہ مند ہے ۔انہو ں نے کہاکہ ’’ یہاں پر لوگ ہیں جوکہتے ہیں کہ میں اپنا ڈھول بجاکر آواز لگاتا رہوں کیونکہ انہیں اپنے موبائیل فونوں پر بھروسہ نہیں ہے‘‘