سمن بودانی پاکستان کی پہلی ہندو خاتون ہیں جو سیول جج کے عہدے پر تعینات ہوئی ہیں ۔ سمن نے جوڈیشل افسران کا امتحان پاس کیا اور میرٹ لسٹ میں 54 نمبر پر آئیں ہیں، جس کے بعد انھیں سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے۔
شہداد کوٹ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ایک پسماندہ شہر ہے جو سنہ 2010 کے سیلاب سے شدید متاثر ہوا تھا ۔سُمن بودانی نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم آبائی شہر سے ہی حاصل کی، حیدرآباد سے ایل ایل بی کے بعد انھوں نے زیبسٹ یونیورسٹی کراچی سے ایل ایل ایم کیا۔سُمن بودانی کا قانون کے شعبے میں آنا والد کا فیصلہ اور خواہش بھی تھی۔
ان کے والد ڈاکٹر پون بودانی نے بی بی سی کو بتایا کہ حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی سے منسلک کالج میں پانچ سالہ قانون کی ڈگری کے پروگرام کا آغاز ہو رہا تھا، یہ اس کا پہلا بیچ تھا۔ انھیں شوق ہوا کہ یہ فیلڈ بہت اچھی ہے اور دل کی خواہش تھی کہ بچے غریبوں کو انصاف دلانے میں مددگار ثابت ہو سکیں اس لیے سُمن بودانی کو اس شعبے میں بھیج دیا۔
سُمن بودانی کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کا تعلق دیہی علاقے سے ہے، وہاں انھوں نے کافی لوگوں کو مسائل کا شکار دیکھا جو عدالتی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تھے۔’میں نے سوچا تھا کہ میں وکالت میں جاؤں گی اور انہیں انصاف دلاؤں گی۔‘ سُمن بودانی کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ ان کی ’برادری اس فیصلے کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ وہ اس شعبے میں لڑکیوں کے کام کرنے کو پسند نہیں کرتے، تاہم والد اور بہن بھائیوں کی مکمل مدد اور حمایت حاصل رہی حالانکہ اس بارے میں خاندان کو کئی باتیں بھی سننی پڑیں لیکن میرے خاندان نے ان باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مجھے اس مقام پر پہنچا دیا‘۔
سُمن بودانی کے والد ڈاکٹر پون بودانی شہداد کوٹ میں آنکھوں کے امراض کا کلینک چلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 1991 میں انھوں نے کمیشن پاس کیا لیکن سرکاری ملازمت میں کم تنخواہ کے باعث پرائیوٹ پریکٹس کو ترجیح دی اور وہ سنہ1992 سے شہداد کوٹ میں ہی پریکٹس کر رہے ہیں۔