پاکستان میں موجودہ دہشت گرد ٹھکانوں پر انڈین ائیر فورس کا فضائیہ حملہ ۔ مسلم دانشواروں کا ردعمل

حکومت کے نشانہ پاکستان نہیں دہشت گرد تھے۔ قمر آغا
دفاعی امور کے ماہر قمر آقا نے کہاکہ یہ منصوبہ بند حملہ بھی تھااو راچانک کیاگیا اپریشن بھی تھا۔ نشانہ متعین کرکے یہ حملہ کیاگیاتھا۔ یہ حملہ پاکستانی افواج کے خلاف تھا اور نہ ہی وہاں کے عوام نشانے پر تھے بلکہ یہ حملے نشان زددہشت گرد وں کے کیمپوں ہر کئے گئے تھے

۔یہ حملے دوہفتے کی تیاری کے بعد کیاگیاتھا اور حملے کی جگہ منتخب تھی۔ یہ ہندوستانی فضائیہ کا کامیاب اپریشن تھا۔ ہندوستانی حملہ کے بعد پاکستان کے پاس محدود متبادل ہیں۔

وہ کشمیر او رپنجاب سرحد پر کچھ فوجی سرگرمی بڑھاسکتے ہیں ‘ پاکستان ہندوستان میں سلیپر سل کو مشکوک کرسکتا ہے ۔ اگر پاکستان نے بنگ کی طرف قدم بڑھایاتو اس کے سنگین نتائج اسے بھگتنے پڑسکتے ہیں اس لئے میرا خیال ہے کہ پاکستان اپنی کمزور اقتصادی حالت کی وجہہ سے ایسی کوئی بے وقوفی والاقدم نہیں اٹھائے گا۔


فضائیہ کے اہلکار قابل مبارکباد ۔پروفیسر طار ق منصور
وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر طار ق منصور نے پلواماں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے خلاف ہندوستانی فضائیہ کے دہشت گردی کے ٹھکانوں پر کامیاب حملوں کے لئے ہندوستانی افواج کی کاروائی کا خیر مقدم کیاہے۔

انہوں نے کہاکہ پوری یونیورسٹی برداری اورملک کے عوام فضائیہ کے جوانوں کے ساتھ ہیں اور دہشت گردانہ حملہ کا بھر پور جواب دینے کے لئے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ سرحد پار دہشت گردانہ کاروائیو ں پر قدغن لگانے اور ملک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لے یہ حملہ ضروری تھا۔

انہوں نے کہاکہ اس فوجی کار وائی کے ذریعہ ہماری فضائیہ نے غیرمعمولی بہادری کا ثبوت پیش کیاہے اورہم ملک کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت مستعد رہنے کے لئے ہندوستانی فضائیہ کاشکریہ ادا کرتے ہیں۔


دہشت گردو کے نشانے پر ہندوستان بھی اور ہندوستانی مسلمان بھی۔ پروفیسر اختر الوسیع
جنگ خود ایک مسئلہ ہے اس لئے جنگ مسئلوں کا حل نہیں ہوسکتی ‘ یہ بات جتنی صحیح ہے ‘ یہ بھی صحیح ہے کہ ہندوستان سرحد پا ردہشت گردی سے پریشان ہے ۔

سرکارنے جو اقدام کیاہے وہ میری نظر میں بارہ دن کی دیری ہوئی ہے ۔

ہمارا پاکستان کے حوالے سے جو موقف ہے کہ

ہمارے دل میں رفقت بھی ہے پیار بھی ہے

تمہارے واسطے یہ روح ہے قرار بھی ہے

اگرہ کہنے کو جی چاہتا نہیں لیکن

جو‘ اب اہل ہوس تیغ آبدار بھی ہے

ہمارے لئے جو تکلیف دہ مسئلہ ہے وہ ہمارے جوانوں کی شہادت ہی نہیں بلکہ یہ بھی تکلیف دہ ہے کہ اسکے بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے جو خطاب کیااس میں شہیدجوانوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کاکوئی لفظ نہیں کہا۔

اسکو کیاکہیں گے۔ پاکستان میں جو دہشت گرد ہیں ان کانشانہ ہندوستان بھی ہے اور ہندوستانی مسلمان بھی ہیں۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش کا ماحول بناناچاہتے ہیں۔


جنگ مسلئے کا حل نہیں۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرم الدین

جواہرلال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے پروفیسر خواجہ محمداکرم الدین نے کہاکہ ہندوستان او رپاکستان کے درمیان جنگ مسئلہ کاحل نہیں ہے ‘ کیونکہ دونوں ممالک کی زبان ‘ تہذیب او ربہت سی روایتیں مشترکہ ہیں۔

دونوں ایک دوسرے پڑوسی ہونے کی وجہہ سے بھی دونوں ممالک کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ دونوں ممالک کے ادیب وشعر امن کے خواہاں ہیں‘ جہاں تک حالیہ پلواماں حملہ کی بات ہے تو ایسا درد ہے جس کی ٹھیس عرصہ تک محسوس کی جاتی رہے گی۔

میرا دونوں ممالک کے سرابراہوں اور فوجی اہلکاروں سے اپیل ہے کہ امن وعافیت کی راہ اپنائیں اور کسی قسم کی افواہوں او رجنگ جوابا نہ بیان بازیوں سے ہمیں حتی الامکان بچنا چاہئے۔

ہندوستان اس خطہ کا بڑا ملک ہے اور اسکی عظمت کااعتراف پوری دنیامیں ہے لیے امید ہے کہ ہماری حکمراں بھی بڑے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایسی روش اپنائیں گے کہ امن کی راہ کپلی رہے اور جنگ کی کیفیت کا سامنے نہ آئے۔


حکومت کا بروقت اچھا فیصلہ۔ غیور الحسن
چیرمن قومی اقلیتی کمیشن غیو رالحسن نے کہاکہ ہندوستان نے جو سرجیکل اسٹرائیک کیاجس کے نتیجے میں پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے نیست ونابود ہوئے وہ ہندوستانی حکومت نے سوچ سمجھ کر کیا ہے۔

حکومت کا یہ بروقت اچھا فیصلہ ہے ‘ اس فوجی ایکشن میں عوام کا نقصان نہیں ہوا بلکہ صرف دہشت گردوں کاٹھکانہ برباد ہوا ‘ سوال یہ ہوتا ہے کہ آخرکب تک ہندوستان برداشت کرتا۔ مودی جی نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اقدام کیاہے۔

دوسری طرف ہندوستانی وزیرخارجہ نے اپنی ڈپلومیسی کے ذریعہ دنیا کو ہمنوا بنیا جس کے نتیجے میں پاکستان پوری طرح الگ تھلگ ہوچکا ہے۔

ردعمل کے طور پر ہندوستان کا واضح پیغام دینا ضروری تھا؟۔ آخر کب تک ہم دہشت گردی جھیلتے رہتے او رپاکستان کو ڈوزیر بھیجتے رہتے ‘ اس حملے سے پورا ہندوستان خوش او رمتحد ہے ۔

اس کے بعد اگر پاکستان سدھر جاتا ہے تو دوسری کاہاتھ بڑھائے جانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

ڈپلومیسی کی سطح پر ہمیںآگے بڑھنا چاہئے۔ کلیم الحفیظ
چیرمن الحفیظ ایجوکیشنل ٹرسٹ نئی دہلی جناب کلیم االحفیظ نے کہاکہ ہم اپنی فوج کو سلام کرتے ہیں کہ انہوں نے پوری صلاحیت کا مظاہرہ کیاہے ۔

ہم بحیثیت ہندوستانی چاہیں گے کہ امن کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ایسے ماحول پیدا کریں کہ دونوں ممالک بہتر روابھ کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔

دہشت گردانہ حملے من موہن سنگھ حکومت کے زمانے میں بھی ہوتے تھے مگر جب سے نریندر مودی کی حکومت ائی ہے اس کے بعد دہشت گردانہ حملے بڑھ گئے ہیں۔

دوسو سے زائد لوگ اور فوجی مارے گئے ہیں‘ ہمیں ایسی صورتحال میں کشمیریوں سے بات کرنی چاہئے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو اس کو سبق سکھا دیاگیا ہے ۔ اب ہمیں ڈپلومیسی کی سطح پر آگے بڑھنا چاہئے اور ملک کے امن واطمینان کی طرف لے جاناچاہئے۔

جوا ب دینا ضروری تھا۔ڈاکٹر ایم اے خان ایڈوکیٹ
چیرمن آل انڈیا بیک ورڈ کلاسز فیڈریشن نئی دہلی ڈاکٹر ایم اے خان ایڈوکیٹ نے کہاکہ میں پاکستان کے دہشت گرد ٹھکانوں پر حملے کرنے کا جو فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی نے لیاہے اس کی پذیرائی کرتاہوں ‘

پاکستان نے پلوامہ میں فوجیوں پر جوحملے کروائے تھے ‘ اس کاجواب دینا ضروری تھا ‘ پاکستان کو اب ہوش کے ناخون لیناچاہئے۔ اگر امن جیسے حالات پاکستان بناتا ہے تو ائندہ ہمیں با ت چیت کے لئے آگے بڑھنا چاہئے ورنہ نہیں۔