پاکستان سونچ رہا ہے کہ عمران خان اگلے وزیراعظم ہوں گے‘ مگر کیوں؟

ایسا لگ رہا ہے کہ تمام تنصیبات‘ ملٹری‘ عدلیہ اور بیوروکریسی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے
زیادہ تر پاکستانی پوچھنے پر یہ کہہ رہے ہیں کہ کرکٹر سے سیاست دان بننے والے عمران خان ان کے اگلے وزیراعظم ہونگے‘ وہیں کچھ لوگوں اس پر ناگواری کا اظہار کررہے ہیں۔لوگ جو سونچ رہے کہ اس کے باوجود جولائی25کے انتخابات خان کے لئے ان کے سیاسی مستقبل کا سب سے روشن باب ہیں۔

صحافی رفعت سعید نے کہاکہ ’’ ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے جیت حاصل نہیں کریگی مگر عمران کی زیرقیادت اتحادی حکومت کی تشکیل ضرور عمل میں ائے گی‘‘۔ دیگر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وہیں خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی توقع کے مطابق کافی سیٹ حاصل کرتی ہوئے اتحاد کی قیادت کرے گی تو ان کے امیدواری تمام شعبہ حیات کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔

ایک مبصر کا کہنا ہے کہ’’ وہ غیر متوقع ہے اور مضبوط قیادت ہے‘ ایسے امیدوار فوجی تنصیبات کے ساتھ بہتر نہیں چلے ہیں‘‘۔

ایسا لگ رہا ہے کہ تمام تنصیبات‘ ملٹری‘ عدلیہ اور بیوروکریسی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔

یہاں تک کہ طالبان او ردیگر دہشت گرد گروپس خاموشی سے اپنی رضامندی ظاہر کرچکے ہیں۔ ان لوگوں نے خان کی پارٹی کی ریالیوں پر بم باری کرنے سے گریز کیاہے۔ اس کے برخلاف 2013کے الیکشن میں دیکھاگیا ہے کہ لفٹ او رمرکزی پارٹیاں جیسے عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے حملوں کے خوف میں ریالیاں بند کردی تھیں۔

صرف پچھلے ہفتے طالبان نے اے این پی کی ریالی کوپشاور میں نشانہ بنایا اور پارٹی اب بھی اپنے سینئر لیڈر کی موت کے غم سے باہر نکلنے کی جدوجہد میں الجھی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ خان کو ’’طالبان کا خان‘‘ بھی کہہ رہے ہیں‘ اور عمران کو دہشت گرد کا ہمدرد بھی قراردے رہے ہیں۔

سابق میں طالبان نے امن کی بات چیت میں ضمانت کے طور پر عمران خان کا نام تجویز کیا تھا۔ یہ وہ سایہ جس کو عمران کبھی جھٹلا نہیں سکتے۔بڑح سیاسی قائدین نواز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری‘ اصفندار والی خان اور الطاف حسین نے خان کی پارٹی کو مل رہی فوجی حمایت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

مختلف پارٹیوں کے ’’نمائندوں کو ‘‘ خفیہ ادارے پی ٹی ائی میں شامل ہونے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔سیاست دانوں کا الزام ہے کہ دیگر جو شامل ہونے سے گریز کررہے ہیں انہیں الیکشن کمیشن مسترد کررہا ہے۔

سابق سینٹ چیرمن رضا ربانی نے کہاکہ ’’ اب یہ صاف ہوگیا ہے کہ عمران کو بھر پور موقع دیا جارہا ہے‘ مگر مجھے تشویش اس بات کی ہے کہ یہ ہنی مون کب تک چلے گا‘‘۔

موجودہ حکومت کو جانبداری برتنے کا مور د الزام ٹہرایاجارہا ہے۔پنجاب میں حکومت کے عہدیدارپی ٹی ائی کارکنوں کو پارٹی بیانرس نصب کرنے میں مدد کررہے ہیں۔ دوسری مثال یہ ہے کہ سیاسی قائدین کی حمل ونقل کو محدو د کردیا گیا ہے جبکہ خان کو پوری آزادی کیساتھ گھومنے کا موقع دیاجارہا ہے۔

بلاول کو کئی مقامات پر روک دیا گیا جس میں لاہور ائیر پورٹ بھی شامل ہے ‘ وہیں وہیں ان کی ہوائی جہاز کو پیشاور آڑان بھرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ان کے آبائی شہر میاں والی میں خان کا نہ صرف ہوائی جہاز فوجی ہوائی اڈے پر اترا بلکہ انہیں پورے پروٹوکال سے بھی نوازا گیا۔ایک مبصر نے کہاکہ’’یہ دیگر سیاست دانوں کے فکرکی بات ہے‘‘۔