پاسوان نے رام مندر آرڈیننس کی مخالفت کی اور سبریملا مندر میں خواتین کے داخلہ کی حمایت۔

یونین منسٹر پاسوان نے کہاکہ ’’ رام مندر کے متعلق سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ سناتا ہے ہر کسی کو وہ قبول کرنا ہوگا‘ چاہئے وہ ہندوؤں ہو ں یا پھر مسلمان یا پھر کوئی اور کمیونٹی‘‘

نئی دہلی۔ ایل جے پی سربراہ نے کہاکہ ’’ رام مندر کے متعلق سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ سناتا ہے ہر کسی کو وہ قبول کرنا ہوگا‘ چاہئے وہ ہندوؤں ہو ں یا پھر مسلمان یا پھر کوئی اور کمیونٹی۔ہما رے موقف میں استدلال ہونا چاہئے۔

جب وزیر اعظم نے کہہ دیاکہ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے تو اس کے بعد تمام اگر مگر کی باتیں یہاں پر ختم ہوجاتی ہیں‘‘۔ دودن قبل اے این ائی کو دئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہاکہ تھاکہ قانونی عمل ختم ہوجانے کے بعد رام مندر پر حکومت آرڈیننس پر کوئی فیصلہ لے گی۔

حال ہی میں جے ڈی(یو) سربراہ کمار نے اس متنازعہ مسلئے کو حل کرنے کے لئے یا تو عدالتی راستہ اختیار کرنا چاہئے یا پر دونوں فریقین کے درمیان باہمی اتفاق کے ذریعہ اس حساس مسلئے کا حل تلاش کیاجاناچاہئے۔جمعہ کے روز رام جنم بھومی اور بابری مسجد کیس پر سپریم کورٹ میں سنوائی متوقع ہے۔

دوسری مرتبہ ایل جے پی نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ رام مندر معاملے میں آرڈیننس کے خلاف ہے۔

پچھلے ماہ پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان نے کہاکہ تھا کہ رام مندر او رمذہب ہوسکتا ہے بی جے پی کے حساس ایجنڈہ ہے مگر یہ این ڈی اے کو نہیں ہوسکتا۔پاسوان نے کہاتھا کہ ’’ ہم نے این ڈی اے کی میٹنگ میں واضح طور پر کہہ دیاتھا کہ ترقی ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے۔

کچھ لوگوں نے رام مندر اور بجرنگ بلی جیسے موضوعات اٹھائے جس سے عوام گمراہ ہورہی ہے۔ مندر کسی ایک پارٹی کا ایجنڈہ ہوگا این ڈی اے او رحکومت کا نہیں۔ اس پر عدالت کے فیصلے کا ہم انتظار کرلیتے ہیں‘‘۔

اس کے علاوہ ایل جے پی چیف کا سبریملا مسئلہ پر بھی بی جے پی کی سونچ کے خلاف رویہ دیکھائی دیا اور کہاکہ ان کی پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے جس میں تمام عمرکی عورتوں کو کیرالا کی مندر میں داخلہ کی اجازت دی ہے۔

کسی بھی جنسی امتیاز کے ایل جے پی خلاف ہے۔انہوں نے کہاکہ’’ سپریم کورٹ نے اس فیصلہ سنایا ہے اور اب دو عورتیں مندر میں داخل ہوگئی ہیں۔ کیاحکومت مندر میں انہیں جانے سے روک رہی ہے؟۔ جنس کے نام پر یہاں کوئی امتیاز سلوک نہیں ہونا چاہئے۔

عورتیں اپنے مقام کے لئے جدوجہد کررہی ہیں‘ پھر انہیں ایک مندر میں داخل ہونے سے کیوں روکا جانا چاہئے‘