ٹی آر ایس میں دراڑیں ، سینئیر قائدین میں سردجنگ ، صدر کی گرفت کمزور

ضلع ورنگل کے بعد کریم نگر ، نظام آباد اور میدک میں بھی پارٹی میں پھوٹ کے آثار واضح ، بھائی بہن کی پالیسی کا شاخسانہ
حیدرآباد۔ 28 جون (سیاست نیوز) تلنگانہ راشٹر سمیتی میں اندرونی اختلافات منظر عام پر آنے شروع ہوگئے ہیں اور پارٹی ، گروپ بندی اور داخلی انتشار کا شکار ہوگئی ہے؟ سابق میں ضلع ورنگل ، کل تک ضلع کریم نگر اور نظام آباد کے بعد اب ضلع میدک میں پارٹی میں پھوٹ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ سرکاری و عوامی پروگراموں میں ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کے خلاف پارٹی قائدین کھل کر مخالفت پر آتر آئے ہیں۔ ویسے ٹی آر ایس کی قیادت پر ہمیشہ یہ الزام رہا ہے کہ پارٹی نے ہر موڑ پر حقیقی کیڈر کو نظرانداز کیا اور قربانیاں دینے والوں ہی کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا۔ ان ہی اختلافات اور ریاستی عوام کے مفادات کے درمیان دوسری پارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے۔ مبصرین اور سیاسی دانشوروں کے مطابق داخلی انتشار کا شکار ٹی آر ایس پارٹی پر صدر کی گرفت کمزور ہوچکی ہے اور اس کمزور گرفت اور کیڈر میں ناراضگی کو ’’بھائی بہن کی پالیسی ‘‘کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ پارٹی اور اقتدار میں صدر کی آمرانہ روش اور حقیقی کیڈر کو مسلسل نظرانداز کرنا مستقبل میں مشکلات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ منظر عام پر آئے ان اختلافات سے پارٹی قیادت بھی پریشانی کا شکار ہے، چونکہ جن تین اضلاع میں یکے بعد دیگرے واقعات پیش آئے ہیں ، ان کے سبب صدر کی الجھن بھی بڑھ گئی ہے اور ان کیلئے یہ فکر مندی میں بدل سکتی ہے۔ چونکہ ایک طرف الیکشن کے ماحول کے لئے کیڈر کو متحرک کرنے ، ترقیاتی کاموں اور سرکاری دورے شروع ہوچکے ہیں ، ایسے میں پارٹی کے داخلی اختلافات ، مضبوط اپوزیشن کو فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ ترقی میں اور پارٹی کیڈر میں مضبوط قیادت کے دعویدار ٹی آر ایس کے قائد پارٹی کیڈر کو ناراضگی سے الجھن میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ رات دن زمینی سطح پر رہتے ہوئے پارٹی کی ترقی اور مقبولیت کیلئے خدمات انجام دینے والے زمینی سطح کے کیڈر میں ناراضگی ایسا سمجھا جارہا ہے کہ پارٹی کو زمین دوز کرسکتی ہے اور اس کے خطرناک نتائج پارٹی کے دیگر حلقوں اور دوسرے کیڈر کو کمزور کرنے اور ان کے آپسی اتحاد کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ پارٹی کیلئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ داخلی انتشار اور اندرونی اختلافات اعلیٰ سطح کے کیڈر میں واضح ہوچکے ہیں۔ اگر نچلی سطح سرپنچ اس سے زائد ضلع پریشد اور منڈل سطح کے کیڈر میں ہوتے تو اس قدر حیرانی اور پریشانی نہیں ہوتی تھی، لیکن اختلافات تینوں اضلاع میں وزرائ، ارکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی کے درمیان ہیں جو مضبوط قیادت اور پارٹی پر اپنی گرفت کے کے سی آر کے دعوؤں کو بے بنیاد اور کھوکھلے ثابت کرتے ہیں۔ ضلع ورنگل میں سابق اور موجودہ ڈپٹی سی ایم راجیہ اور اور کڈیم سری ہری۔راجیہ گھن پور حلقہ سے نمائندگی کرتے ہیں جبکہ موجودہ ڈپٹی سی ایم کو راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد بحیثیت ایم ایل سی ہیں جبکہ دیگر قائدین ایربلی دیاکر راؤ، بالا کروتی حلقہ اسمبلی اور ایم ایل سی کنڈا مرلی کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح اسپیکر مدھو سدن چاری جو حلقہ اسمبلی بھوپال پلی اور کنڈا سریکھا رکن اسمبلی ضلع ورنگل کے درمیان سرد جنگ منظر عام پر آچکی ہے۔ ضلع کریم نگر میں ریاستی وزیر راجندر، رکن راجیہ سبھا کیپٹن لکشمی کانت، ضلع نظام آباد میں کویتا (دُختر کے سی آر) رکن پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا رکن ڈی سرینواس کے درمیان سیاسی مخالفت زوروں پر ہے اور کویتا نے پارٹی کیڈر کی مدد سے ڈی سرینواس کی شکایت اپنے والد و صدر پارٹی سے کردی ہے اور آج رکن اسمبلی سنگاریڈی چنتا پربھاکر اور رکن اسمبلی اندول بابو موہن کے درمیان داخلی اختلافات منظر عام پر آگئے ہیں۔ پارٹی کے اس موقف سے لاپرواہی کے بعد اب پارٹی کیلئے فکرمند ہوگئے ہیں لیکن سیاسی مبصرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ اب اس سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ۔ ریاست کی ترقی کو نظرانداز کرنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے سی ایم کو اب پارٹی ورکرس کی جانب سے بھی بالخصوص طلبہ برادری سے شدید ناراضگی کا سامنا ہے اور چناؤ بھی قریب ہے۔ گروپ بندی ، داخلی انتشار اور مخالفت کہیں ٹی آر ایس کو پھوٹ کی جانب تو نہیں ڈھکیل رہے ہیں۔