حکومت کی اسکیمات بے اثر، عوام میں ناراضگی، غریب پریشان، اعلیٰ طبقہ خوشحال
سنہرے تلنگانہ کا خواب دکھانے والے اپنے محل تک ہی محدود
اقلیتوں کے تحفظات کا وعدہ 4 سال بعد بھی وفا نہ ہوا
1300 کروڑ بجٹ میں صرف 7 کروڑ روپئے ہی خرچ
حیدرآباد ۔ 4 جولائی (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں طبقہ واری سطح پر رائے دہندوں کو متاثر کرنے اور اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی کوشش کیا رنگ لائے گی یہ آنے والے انتخابات میں واضح ہوگا چونکہ ہر اقدام سے قبل اور اس کے بعد وقفہ وقفہ سے سروے کروانے کے خواہشمند چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ ان دنوں سرکاری اسکیمات کی اجرائی اور اس کے اثرات سے ایسا لگتا ہے نئی الجھن کا شکار ہوگئے ہیں۔ اپنے تیار کردہ جال میں پڑی گھانٹ سے وہ خود پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف اپوزیشن کانگریس کے بڑے اثرات اور عوامی مقبولیت دوسری طرف سرکاری اسکیمات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہونا لاحاصل کوشش دکھائی دے رہی ہے۔ ریاست کی عوام میں شہری ہو یا پھر دیہی یہ بات عام ہوتی جارہی ہے اور ایک نعرہ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہیکہ کوئی خوش نہیں ہے۔ کے سی آر، سنہرے تلنگانہ کا خواب دکھانے والے سنہرے محلات تک محدود ہوگئے ہیں۔ حالیہ دنوں جاری کردہ رعیتو بندھو اسکیم ہو یا پھر بی سی طبقہ کیلئے بکریوں کی تقسیم یا پھر عہدوں کی نشستیں نامزد کرنے میں من مانی کے الزامات پہلے ہی حکومت پر پائے جاتے ہیں۔ کسانوں کو دیئے گئے 4 ہزار روپئے انشورنس کی رقم میں قولداروں کیلئے کوئی جگہ نہیں جس سے ایک بڑا طبقہ ناراضگی کا شکار ہوگیا ہے۔ 4 ماہ میں ٹاملناڈو طرز پر مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کا وعدہ 4 سال میں بھی وفا نہ ہوسکا جبکہ اقلیتوں کو سابق میں تقریباً 1300 کروڑ روپئے بجٹ میں مختص کئے گئے تھے جس میں سے صرف 7 کروڑ خرچ ہوئے۔ اس مرتبہ 2 ہزار کروڑ کا بجٹ اقلیتوں کیلئے مختص کیا گیا لیکن عمل آوری میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں یتی۔ دلتوں کو تین ایکڑ اراضی کا وعدہ بھی وفا نہ ہوسکا جبکہ ریاست کا کم آبادی والا اعلیٰ ذات بااثر طبقہ ریڈی، کاپو اور کما بھی بے چینی کا شکار ہے۔ حالیہ دنوں حکومت کی کارکردگی اور پارٹی کے داخلی اختلافات نے چیف منسٹر کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اپوزیشن کا جواب دینے کیلئے حکمت عملی کی تیاری میں مصروف چیف منسٹر کیلئے پارٹی کیڈر کو بچانے اور عوام میں بڑھتی برہمی کو دور کرنے کیلئے فرصت ہی نہیں مل رہی ہے۔ تقریباً ہر ضلع میں پارٹی کیڈر میں دراڑیں اور نفرت کا ماحول اپوزیشن کیلئے انرجی ثابت ہورہا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس مرتبہ اپوزیشن کانگریس اپنے داخلی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے کامیاب حکمت عملی کے تحت عوام کی توجہ کو مبذول کروانے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے اور ہر موقع کا درست سیاسی فائدہ حاصل کررہی ہے۔ ناراض عوام کے درمیان پہنچ کر انہیں دلاسہ دینے اور ان کا بھروسہ جیتنے میں مصروف و مگن دکھائی دے رہی ہے۔ طبقہ واری سطح پر مسلمانوں کی آبادی کو بہت زیادہ راغب کررہے ہیں چونکہ حکومت نے 12 فیصد تحفظات کے مسلہ پر سب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کی ہے۔ 12 فیصد تحفظات سے ہونے والے فائدہ سے مسلم سماج بخوبی واقف ہوچکا ہے اور اب سوائے تحفظات کو حالات کو بدلنے اور ابتر حالات کو بہتر حالات میں لانے کا کوئی اور ذریعہ تصور نہیں کیا جارہا ہے۔ سیاسی دوراندیشی اور مخالفین کو پسپا کرنے میں مہارت رکھنے والے کے چندرشیکھر راؤ ایسا لگتا ہیکہ اب اپنے ہی تیار کردہ سیاسی جال میں پھنس گئے ہیں۔
عوامی مخالفت اور ناراضگی کو خوشی میں بدلنا اور ناراض کیڈر کے علاوہ پارٹی کے داخلی انتشار کو ختم کرنا ان کیلئے بہت بڑا امتحان ہے جس کیلئے وقت بہت کم ہے تو دوسری طرف ناراضگی میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔