جنوبی کوریا۔ شمالی کوریا‘ ہندوتان‘ پاکستان ‘ ایران ‘ سعودی عرب او رترکی ویونان جیسے سخت حریف ممالک نے بھی دشمنی کو بالائے طاق رکھ کر یروشلم کے سلسلے میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف قرارداد کے حق میں ووٹنگ کی
نئی دہلی۔امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو صیہونی ریاست کا درالخلافہ تسلیم کئے جانے پر عالمی برداری کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیاہے۔ یہا ں تک کہ امریکہ سکیورٹی کونسل او راقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اس مسئلہ پرشرمسا ر اور رسوا ہوگیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے نے دوست او ردشمن دونوں کو یکجا کردیا۔ ایسے ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں او روہ اقوام متحدہ میں کبھی بھی ایم وقف پر متحد نظر نہیں آتے ‘ انہو ں نے بھی فلسطین کے عوام کی حمایت میں اپنی دشمن بالائے طاق رکھ دیا۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںیروشلم کے فیصلے کے خلاف قرارداد میں ووٹنگ کرنے والے ممالک کو دھمکی دی تھی۔ ٹرمپ نے ان ممالک کو بھی براہ راست متنبہ کیا تھا جن کو امریکہ لاکھوں ڈالر امداد کے طور پر دیتا ہے ۔ اس میں مصر‘ اردن‘ پاکستان اور افغانستان سمیت درجن بھر سے زائد ممالک شامل ہیں‘ تاہم کسی بھی ملک نے امریکی کی دھمکی کو قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ اگر کوئی کوریائی جزیرے کی بات کی جائے تو آپس میں سخت ترین دشمن جنوبی وشمالی کوریا نے بھی فلسطین کی قرارداد کے حق ووٹنگ کی ۔ جنوبی کوریا او رشمالی کوریا نہ صرف ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن اور حریف ہیں بلکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کوصفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔
جنوبی کوریا امریکہ کا اتحادی ملک ہے۔اسی طرح ہندوستان او رپاکستان نے بھی اس قرارداد کے حق میں وٹنگ کی۔یادرہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںیروشلم کے متعلق ٹرمپ کے فیصلے کو کالعدم قراردینے کے لئے ووٹنگ سے قبل اس طرح کی قیاس ارائیاں تھیں کہ ہندوستان قرارداد کے خلاف جاسکتا ہے کیونکہ متعدد بی جے پی لیڈروں نے حکومت پر زوردیاتھا کہ وہ قرارداد کے حق میں ووٹ کے بجائے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ لیکن ہندوستان نے تمام قیاس آرائیوں پس وپشت ڈالتے ہوئے قرارداد کے حق میں ووٹنگ کی ۔
اسی طرح عالم اسلام میں دوسخت ترین حریف سمجھے جانے والے ممالک سعودی عرب او رایران نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دئے۔ اگرچہ یہ کہاجارہا ہے کہ ٹرمپ نے یروشلم کے سلسلے میں فیصلے سے قبل سعودی عرب کو اعتماد میں لیاتھا لیکن امریکہ کے قریبی اتحادی ہونے کے باوجود بھی سعودی عرب کو قرارداد کے حق میں ووٹ دیناپڑا۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو عالم اسلام میں سعودی عربت کی معتبریت ہی مشکوک ہوجاتی اوربہت ممکن تھا کہ مملکت میں عوام اپنے غم وغصہ کے اظہار پر مجبور ہوتے۔ دوسری طرف علاقائی امور پر ایک دوسرے کے حریف ترکی او ریونان نے بھی ساتھ مل کر ووٹ دئے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ترکی او ریمن نے قرارداد پیش کی تھی۔