اقوام متحدہ میں فلسطین کے عنوان پر امریکہ کی شرمناک ہزیمت اس قابل تھی کہ کوئی غیرت مند صدر ہوتاتواستعفیٰ دے کر گھر چلا جاتا اور دوبارہ کبھی وہائٹ ہاوز کا رخ نہ کرتا لیکن وہ شخص جو ڈونالڈ کے نام سے پوری دنیامیں اپنی بدماغی کے لئے مشہور ہے اب بھی اپنے عہدہ پر ڈٹا ہوا ہے ‘ شاید اس کے لئے کہ بعض لوگوں کو گالیاں کھاکہ بے مزانہ ہونے ہی میں مزا آتا ہے۔ وہ ہزیمت کو ہزیمت بھی سمجھتے خواہ کتنی ہی شرمناک ہو۔ اس مرتبہ فلسطین کو ملنے والی عالمی حمایت جتنی غیرمعمولی ہے اتنی ہی تاریخی بھی۔جن ملکوں نے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے مجنونانہ فیصلے اور اعلان کی مخالفت کے ذریعہ ٹرمپ کو ان کی اوقات دکھادی ہے ان میں کون سا اہم ہے جو شامل نہیں ہے۔ ان مجموعی تعداد 128ہے۔
اس کے برخلاف ٹرمپ کاساتھ دینے والوں میں محض نو ممالک ہیں جن کی نہ تو کوئی اہمیت ہے نہ ہی طاقت ۔اقوام متحدہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے والوں کی تعداد 128کے مقابلے میں بھی یہ اس قدر کم ہیں یہ سب مل کر ملک کی ایک ریاست کے برابر نہیں ہوسکتے۔ اس سے ٹرمپ کو اپنے انتہائی مقبول ہونے کا احساس ہونا چاہئے لیکن ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔وہ ایسی مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ ساری دنیاتھوتھو کرے تب بھی انہیں نہ تو احساس ہوگا نہ ہی وہ بے مزا ہوں گے۔
یروشلم میں سفارت خانہ منتقل کرنے کا ان کا فیصلہ اور اعلان جتنا امریکی پالیسی سے انحراف پر مبنی تھا اتنا ہی غیرمنصفانہ اور جارحانہ تھا۔اس میں شک نہیں کہ عالمی برداری نے اب تک فلسطینی کاز کو بہت ایمانداری سے نہیں لیااور حق وانصاف پر مبنی کردار ادا نہیں کیاہے۔اس میں بھی شک نہیں کہ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر حق کو حق نہ کہہ کر اپنے مفادات کو ناپتے اور تولتے رہنے کو ترجیح دی ۔ اس کے باوجود ان میں حق اور باطل کی تمیز ہے۔وہ سفات کی اہمیت اور ضرورت سے بھی واقف ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ اپنے عوام کو منہ دکھانا ہے جو حکمراں کی طرح بے ضمیری کی زندگی جیتے ۔
انہیںیہ بھی اندازہ ہے کہ دنیابدل رہی ہے او رعوام سوال پوچھنے لگے ہیں۔انہیںیہ پسند نہیں کہ انسانی حقوق او رمساوات کا نعرہ ان کے منہ پر تمانچے کی طر ح پڑے۔ اس لئے انہوں نے بے اصولی کے بھی اصول بنا رکھے ہیں چنانچہ اگر اصولوں کی سو فیصد پاسداری نہیں کرتے تو سراسر بے اصولی سے بھی کام نہیں لیتے۔ یہی وجہہ ہے کہ ٹرمپ کی عاقبت نااندیشی پسند نہیں ائی۔اس کے برخلا ف ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ان ملکوں کی انصاف دوستی کھل گئی۔
مختلف ملکوں کی امداد روک دینے کی دھمکی دے کر انہو ں نے اپنے ظرف کو بھی آئینہ دکھادیا ہے ۔ کسی امریکی صدر نے اپنے منصب کو آج تک اتنا بے وقعت نہیں کیاجتنا ٹرمپ نے کیاہے۔ وہ اپنی صدارت کے پہلے دن سے عوام میں غیرمقبول ہیں۔
اب ان کی اوٹ پٹانگ حرکتیں انہیں مزید غیر مقبول بنارہی ہیں۔ہمیں وہ دن دور نہیں لگتا جب امریکی عوامی نمائندے ان کے خلاف تحریک مواخدہ پیشکرکے ان سے پنڈ چھڑانے کو ترجیح دیں گے ۔ تو کیاٹرمپ مخالف ملکوں کی امداد روکنے جیسا موقف ان کے خلاف بھی اپنائیں گے اور ان کاحقہ پانی بندکردیں گے؟۔ ان میں ہمت ہوتو ایسا کردکھائیں۔
زمانہ ان کا یہ ستم ضرور دیکھناچاہئے گا۔فلسطینی کاز کی حمایت میں ووٹ دینے والوں میں وطن عزیز ہندوستان بھی ہے جس نے نئی دہلی کی روایتی فلسطین دوستی کو فوقیت دے کر بلاشبہ قابل ستائش قدم اٹھایا ہے۔
یہ نہ ہوتا تو ہم عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑجاتے۔ ہمارے لئے ضر وری ہے کہ ہم اپنی برسوں پرانی فلسطین پالیسی ہی پر کار بند رہیں۔ اس سے ہماری عالمی شبیہ کو توقیت ملتی رہی ہے او رہم ایک انصاف پسند ملک کے طور پر اپنے وقار میں اضافہ کا سبب بنتے رہے ہیں۔