جواب میں صدر اردغان نے کہاکہ وہائٹ ہاوس نے اس کے لئے جو پیغام جاری کیا ہے وہ درست نہیں ہے‘ بلکہ شام میں کردوں کے خلاف فوجی کاروائی منطقی انجام تک جاری رہے گی‘ ترکی کی بری فوج اور فضائیہ پانچ دنوں سے عفرین علاقے میں جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کررہی ہے۔
واشنگٹن۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ترکی کو خبردار کیاہے کہ وہ شام میں امریکہ کی فوج سے بہ بھڑے۔جواب میں ترکی نے کہاہے کہ وہائٹ ہاوز نے اس کے لئے جوپیغام جاری کیاہے وہ درست نہیں ہے۔
ٹرمپ نے صدر اردغان سے بات چیت میں ایسی کوئی بات نہیں کہی جس کا مطلب شام میں فوجی کاروائی روکنے سے ہو۔ ترکی کی بری فوج اور فضائیہ پانچ دنوں سے شام کے عفرین علاقے میں کردوائی پی جی جنگجوؤں کے خلاف کاروائی کررہی ہے۔ ترکی ان جنگجوؤں کو ان کردملیشیا کا حامی مانتا ہے جو ترکی میں بدامنی پھیلانے کے لئے حملے کرتے ہیں۔
شام میں موجود کردائی پی جی جنگجو بشار الاسد حکومت کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں۔ انہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے ۔ اس لئے ٹرمپ نے شام میں امریکی مفادات کو چوٹ نہ پہنچانے کے لئے ترکی کو خبردار کیاہے ۔
قابل ذکر ہے کہ ترکی امریکہ کی قیادت والے نیٹو فوج اتحاد کا رکن ملک ہے۔باوجود اسکے ترکی کے روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے کہاہے کہ ان کی فوجیں شام کے منیج میں کاروائی کا دائرہ بڑھائیں گی۔ اس سے پہلے وہائٹ ہاوس نے جاری بیان میں کہاکہ صدر ٹرمپ نے صدر اردغان سے ٹیلی فونک مذاکرات میں شامل میں فوجی کاروائی کم کرنے کی درخواست کی ۔
تاکہ معصوم شہریوں کی اموات کو روکا جاسکے گا۔ٹرمہ نے ایسے حالات پیدا نہ کرنے کی درخواست کی جس پر امریکی اورترکی کی فوجوں کوآمنے سامنے آناپڑا ۔امریکہ کے قریب دوہزار فوجی شام میں ہیں۔ یہ اسد مخالف جنگجوؤں کے تربیت گولہ بارود کی مدد او رحکمت عملی بنانے میں تعاونکرتے ہیں۔ صدر طیب اردغان نے امریکی خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ہے کہ ترکی کی جانب سے شام میں کردوں کے خلگف جاری فوجی کاروائی منطقی انجام تک جاری رہے گی۔انہوں نے امریکہ پر زوردیاکہ وہ شام میں کردوں کی حمایت اور دفاعی مدد کا سلسلہ بند کرے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل ہی امریکی وزیرخارجہ ریکسن ٹیلرسن نے شام میں امریکی فوج کی موجودگی کی وضاحت کرتے ہوئے کہاہے کہ ایران کے اثر رسوخ اور طاقت کو روکنے کے لئے شام میں امریکی فوج باقی رہے گی۔ ایک امریکی یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے شام میں فوجی موجودگی کی پانچ وجوہات بیان کیں۔
انہوں نے دعوی کیا کہ وہ داعش کو مکمل شکست دینے ‘ ایران کے اثرورسوخ کا راستہ روکنے‘بحران شام کوجنیوا مذاکرات کے تحت حل کرنے ‘ بے گھر ہونے والوں کی واپسی کو یقینی بنانے او رشام کو کیمیائی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے اس ملک میں امریکی فوج کی موجودگی کی ضرورت ہے۔