یروشلم کو اسرائیل کی درالحکومت بنانے کے امریکی فیصلے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسترد کردیا ہے ۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا یہ تاریخ ساز قدم بتایا جارہا ہے ۔ امریکی فیصلے کے حق میں صرف نو ووٹ پڑے جبکہ 128ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ ڈالااور دوسری قراردادمنظور کرتے ہوئے امریکہ سے جنرل اسمبلی نے کہاکہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔ ووٹنگ میں جہاں 128ممالک نے قرارداد کے حق میں وو ٹ دیا وہیں 36ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیاجبکہ نو ممالک نے قرارد کی مخالفت کی ۔ قرارداد میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ شہری کی حیثیت کے سلسلے یں فیصلہ’’باطل اورکالعدم‘‘ہے۔
اس لیے اسے منسوخ کیاجاتا ہے۔ اس طرح سح اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کو مستردکردیاگیا اس سے امریکہ کو توہین کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے قبل بھی ڈونالڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کے سلسلے میں کچھ قوانین بنائے تھے جسے امریکی عدالت نے مستردکردیاتھا۔ جس سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ امریکی صدر بہت سارے فیصلے ہو ش وحواس میں نہیں بلکہ جذبات میں کررہے ہیں جسے آگے چل کر عدالتیں یا اقوام متحدہ کونسل جیسے ادارے اسے مسترد کررہے ہیں۔
امریکہ خود کو دنیاکا سب سے بڑا طاقتور ملک سمجھ رہا ہے اور من مانی طریقے سے ایسی حرکتیں کررہا ہے جس سے پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ امریکہ کی اس وقت کی پالیسی ہے جو بھی ایک ایماندار تعلیم یافتہ اور سنجیدہ سماج سے میل نہیں کھاتی۔ دہشت گردی کے خاتمہ کا معاملہ اگر لیاجائے تو اس میں بھی امریکہ کی کاروائی جس طرے سے چل رہی ہے اور وہ بھی کہیں نہ کہیں شک کے دائرے میں ہے‘ کیونکہ امریکہ ایماندار طور پر دہشت گردی کے خلاف کاروائی نہیں کررہا ہے بلکہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ صلیب اور اسلام کے درمیان ہے ۔
حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حمایت شروع میں امریکہ نے صرف اس لئے کی تھی کہ اس وقت افغانستان کے صدر نجیب اللہ کے سویت یونین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سویت یونین نجیب اللہ کی حمایت میں کھڑا تھا او رنجیب اللہ طالبان کے ساتھ جنگ لڑرہے تھے۔ امریکہ نے طالبانیوں کے ساتھ صرف اس لئے دیا کہ وہ اس خطے میں سویت یونین کو نیچا دیکھانا چاہتا تھا ‘ لیکن بعد میں طالبانیوں نے امریکہ کے ہتھیار سے امریکیوں کے خلاف کاروائی کی جس سے امریکہ کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔
تازہ معاملے میں ڈونالڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ قرارداد کے حق میں رائے دینے والوں کی مالی مدد بند کردی جائے گی۔ انہوں نے وہائٹ ہاوز میں ایک میڈیا کانفرنس میں بھی کہاتھا کہ بہت سارے ممالک امریکہ سے ارب ڈالر کی مدد لیتے ہیں اور وہ ان کے خلاف ووٹ دینے والے ممالک پر اقتصادی پابندی عائد کردی جائے گی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ان ممالک کی اقتصادی امداد بند کرتے ہیںیا نہیں جنھوں نے ان کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ ممبرملک کو انصاف کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوا ہے تو اقوام متحدہ نے دقعت ہوکر رہ جائے گی۔ دنیا میں اگر اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ کسی نے کمزور کیا ہے توہ صرف امریکہ ہ ہے جس نے اپنے مفادات کے لئے اقوام متحدہ سے ایسی ایسی قراردادیں منظور کرائی جو کہیں نہ کہیں انسانیت اور ترقی یافتہ تہذیب یافتہ سماج کے لئے مناسب نہیں تھیں۔
بہرحال ہم ان ممالک کی ستائش کرتے ہیں جنہوں نے امریکہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالا ہے۔امریکہ اگر چاہتا تو دنیامیں امن قائم ہوسکتا تھا لیکن آج تقریبا ہر خطے میں اپنے مفادات کی خاطر امریکہ گڑ بڑپھیلا رکھی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اقوام متحدہ کو مستحکم اور مضبوط بناکر امریکہ کے ناپاک ارادوں کو ناکام کردیں گے۔