واشنگٹن ۔ 3 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) مصر کے صدر عبدالفتح السیسی 2013 میں ملک کی قیادت سنبھالنے کے بعد پہلی بار وائٹ ہاؤس کا دوشنبہ کو دورہ کرنے والے ہیں۔مصر ایک طویل عرصے سے امریکہ کا وفادار رہا ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی تب بڑھی جب صدر السیسی نے اپنے سیکولر اور اسلامی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ان کے اس اقدام کے جواب میں اوباما انتظامیہ نے 18 ماہ تک مصر کی فوجی امداد بند کر دی تھی۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مصر اور امریکہ کے دوطرفہ تعقات کی ازسر نو ابتدا کرنا چاہتے ہیں۔ستمبر میں نیویارک میں صدارتی مہم کے دوران صدر السیسی سے ملاقات کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ یہی چاہتے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط رابطے ہوں۔عبدالفاتح السیسی نے ملک میں پہلے جمہوری صدر محمد مرسی کی حکومت کو بحیثیت وزیرِ دفاع سنہ 2013 میں برطرف کر دیا تھا جب ان کے اقتدار کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج ہوا تھا۔آنے والے مہینوں میں ملک میں مرسی کے حامیوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور تشدد کے نتیجے میں احتجاج کرنے والے ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن کے دوران ہزاروں افراد گرفتار ہوئے اور اس دوران سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر قانون کی خلاف ورزی کی
جس میں جبری گرفتاریاں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔امریکہ میں موجود ایک گروہ کا کہنا ہے کہ صدر السیسی نے بھی سول اور سیاسی حقوق پر شدید پابندیاں لگائیں ا سے حسنی مبارک کے دور میں کی جانے والی بغاوت سے حاصل ہونے والے فوائد کے اثرات ختم ہو گئے۔صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مصر میں انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظات کو پیر کو ہونے والی ملاقات میں اٹھایا جائے گا۔ تاہم اس کے لیے پرائیوٹ اور محتاط انداز اپنایا جائے گا۔’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مثبت نتائج حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔’تاہم ہیومن رائٹس واچ کی واشنگٹن میں ڈائریکٹر سارہ مارگن نے اس طریقہ کار پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ‘ایک ایسے وقت میں جب ہزاروں مصری جیلوں میں ہیں اور تشدد پھر سے عام ہے السیسی کو واشنگٹن کے سرکاری دورے کی دعوت دینا مستحکم سٹریٹیجک تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک عجیب راستہ ہے۔’