ٹرمپ آج چین پر تجارتی تحدیدات کا اعلان کریں گے

تجارتی شعبہ میں چین نے اپنے وعدوں کی تکمیل نہیں کی
امریکہ کو چین کے ساتھ تجارت کرنے پر 500 بلین
ڈالرس کا خسارہ
USTR نے چین پر چار الزامات عائد کئے

واشنگٹن ۔ 22 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ توقع ہیکہ کل چین کے خلاف تحدیدات کو منظرعام پر لائیں گے۔ وائیٹ ہاؤس نے آج ایک بیان اس وقت جاری کیا جب یو ایس ٹریڈ ریپریزنٹیٹیو (USTR) سے تعلق رکھنے والے افسران نے بتایا کہ امریکہ کے پاس اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ چین نے انٹلکچول پراپرٹی اور ٹیکنالوجی ٹرانسفرس معاملہ میں اپنے وعدوں کی پابندی نہیں کی ہے۔ وائیٹ ہاؤس کے پرنسپل ڈپٹی پریس سکریٹری راج شاہ نے کہا کہ کل صدر موصوف یو ایس ٹی آر کی 301 تحقیقات کی بنیاد پر تحدیدات عائد کرنے کے فیصلہ کا اعلان کریں گے جو دراصل چینی حکومت کی قیادت میں مارکٹ کے موقف کو خراب کرتے ہوئے امریکی ٹیکنالوجی کا سرقہ کرنے اور زائد دباؤ بنانے سے متعلق ہے۔

افسران نے البتہ اس معاملہ میں مزید معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا جبکہ یو ایس ٹی آر نے چین کی جانب سے تجارت کے شعبہ میں نامناسب رویہ کی تحقیقات کی سیکشن 301 کی رپورٹ صدر موصوف کو سونپی ہے۔ دریں اثناء یو ایس ٹی آر کے ایک افسر نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ شرحیں اور WTO کے معاملات بے شک مذاکرات کی میز پر ہوں گے۔ مذکورہ افسر سیکشن 301 کی تحقیقاتی رپورٹ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بات بتائی۔ ٹرمپ انتظامیہ چین کی جانب سے کی جانے والی جوابی کارروائی سے مطمئن نہیں ہے۔ مذکورہ عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس چین کے خلاف ثبوت موجود ہیں جس نے ہمیں (ٹرمپ انتظامیہ) تشویش میں مبتلاء کر رکھا ہے جس نے مارکٹ سے متعلق چین کے وعدوں اور پابند عہد رہنے پر کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں حالانکہ چین نے جو وعدے کئے تھے اسے نبھانے کے عزائم بھی ظاہر کئے تھے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ فی الحال یو ایس ٹی آر چار نوعیت کے الزامات پر غوروخوض کررہا ہے۔ (1) مختلف مشترکہ تجارتی وینچرس کا حصہ چین مختلف کمپنیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ امریکی ٹیکنالوجی کو چینی کمپنیوں تک منتقل کردیا جائے۔ (2) امریکی کمپنیوں کے پاس اپنی آئی پی کو لائسنس یافتہ بنانے اتنی اہلیت نہیں ہے جتنی چینی کمپنیوں کے پاس ہے۔ (3) کیا چین امریکہ میں آئی پی کی خریداری کیلئے سرکاری فنڈس کا استعمال کررہا ہے۔ (4) امریکہ کو یہ تشویش ہیکہ کیا چین امریکی کمرشیل نیٹ ورکس میں تجارتی فائدہ کیلئے دراندازی کررہا ہے؟ بہرحال ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مذکورہ عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ہر خراب تجارتی معاملہ WTO کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین کے ساتھ امریکہ نے تجارتی مذاکرات کے انعقاد کی کوشش بھی کی ہیں اور ان سے کبھی بھی منہ موڑنے کی کوشش نہیں کی لیکن اس کے باوجود ایک بار پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ چین نے اپنے وعدوں کی تکمیل نہیں کی۔ ہمیں تاریخ سے واقفیت کی ضرورت ہے اور یہ کام پالیسی سازوں کا ہے کہ وہ مذاکرات کی گذشتہ تاریخ کا بھی جائزہ لیں تاہم امریکی انتظامیہ یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہیکہ چین نے تجارتی شعبہ میںکافی چیلنجس پیش کئے ہیں لہٰذا ان کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اس اس بات کا تذکرہ بیحد ضروری ہیکہ امریکہ نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرتے ہوئے خود اپنے ہاتھ جلا لئے ہیں کیونکہ امریکہ کو 500 بلین ڈالرس کے خسارہ کا سامنا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اپنی صدارتی مہمات سے لیکر آج تک جبکہ وہ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں، چین کے ساتھ تجارتی خسارہ کو کم سے کم تر کرنے کی کوشش کئے جارہے ہیں کیونکہ ٹرمپ اس خسارہ کو امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں تصور نہیں کرتے کیونکہ اس سے ملازمتوں کی قلت پیدا ہوگی جس سے امریکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔