نئی دہلی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ایک طبقے نے آغاز تعلیم کے نام سے ایک مہم کی شروعات کی او راندرون تین ماہ مذکورہ طلبہ نے سلم بستیوں میں رہنے والے پندرہ بچوں کو اسکول میں داخلہ دلایاہی
دہلی کے شرم ویہار بستی کے سلم میں بچوں سے ملاقات کے بعد منازا اشرف کا انہیں تعلیم دینے کا حوصلہ ملا۔ اشرف کا کہنا ہے کہ ’’ اچھل کود اور بڑی مسرت کے ساتھ وہ کہتے ہیں‘ ہائی ‘ میم!ان کے جوش وخروش سے میرے دوست بھی متاثر ہوگئے اور میرا ساتھ دینا کا فیصلہ کیا‘‘۔
انیس سال کی اشرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کمیونٹی آغاز تعلیم کا حصہ ہے ‘ جو ایک ساتھ ملکر جامعہ کے پڑوس کے سلم بستی کے 8تا12سال کے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔
عام طور پر ساری دنیا سے نوجوان یونیورسٹی آکر اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو اگے بڑھاتے ہیں۔پراجکٹ کے بانی اور انجینئرنگ سال آخر کے طالب علم گیتش اگروال ’’ خاص طور پر یونیورسٹی کے قریب رہنے والوں کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اور یہ سلم بچوں کی زندگی تبدیل کرنے کے لئے جو اسکول سے دور ہوگئے ہیں‘ ہم نے این جی او کرائی( چائیلڈ رائٹس اینڈ یو )کے تحت ایک پراجکٹ کی شروعات کی ہے ۔
جس کے لئے ہم نے جامعہ کے طلبہ ‘ تین تعلیم دان ‘ دس آرگنائزرس ٹیم ممبرس او رپانچ ٹیم منیجرس شامل ہیں‘‘۔انہوں نے کہاکہ ’’ ایک بچے کے لئے دو ٹیچرس کا تعین عمل میں لایاگیا ہے ‘ جو ساٹھ گھنٹوں میں چھ مضامین پڑھائیں گے ۔ایک بار جب نصاب تکمیل ہوجائے گا‘ ہم بچے کی قریبی سرکاری اسکول میں داخلہ کے لئے مدد کریں گے۔ اس کے بعد ہم ہفتہ میں ایک مرتبہ اسکول میں بچے کی پڑھائی کی جانچ بھی کریں گے‘‘۔
پراجکٹ پر کام شروع کرنے سے قبل مذکور ہ کمیونٹی نے عوام سے پیسے جمع کئے تاکہ والینٹرس کے سفر اور دیگر اخراجات کے لئے پیسے جمع کئے جاسکیں ۔اس کے بعد والینٹرس کی بھرتی کاکام شروع کیاگیا۔
ٹیم منیجر سادیہ عمر19سال جامعہ میں المینٹری ایجوکیشن کی تعلیم حاصل کررہی ہیں نے کہاکہ ’’ میں تعلیم دینے والوں کے رپورٹس کارڈس کی خانہ پری میں مدد کرتی ہوں‘ جس پر والدین اور طلبہ کی دستخط کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ میں بچوں کی زبانی او رتحریری ٹسٹ میں بھی مدد کرتی ہوں‘‘۔ خانم نے کہاکہ ’’ ہر ہفتہ کم آرٹ ‘ کرافٹ اور پلانٹنگ پر ورک شا پ منعقد کرتے ہیں اور ان بچوں کی پرسنالٹی ڈیولپمنٹ اور سلف ڈیفنس کا درس بھی دیاجاتا ہے۔
اس کا مقصد بنیادی طور پر انہیں مضبوط بناکر اسکول میں داخلہ دلانا ہے۔ہم ان بچوں کے والدین کو اسکول میں داخلہ دلانے کے لئے درکار دستاویزات جیسے ادھار کارڈ وغیرہ کی ترتیب میں بھی مدد کرتے ہیں‘‘۔
یکم فبروری سے پائیلٹ پراجکٹ کی شروعات عمل میں ائی اور اپریل 20کے قریب اس کو مکمل کرلیاگیا ہے اور اسٹوڈنٹ والینٹرس مضبط ردعمل کے لئے بے چینی سے منتظر ہیں۔اگروال نے کہاکہ ’’ پراجکٹ کی کامیابی اس وقت ہوگی جب پوری آب وتاب کے ساتھ اس تحریک کو انجام دیاجانے لگے گا۔
قبل ازیں ہم نے پہلی مرتبہ یہ کام انجام دیاتھا۔ آج ہمیں فخر محسوس ہورہا ہے کہ پندرہ بچے اسکول جانا شروع کرچکے ہیں۔ہم اس پراجکٹ کو دوسری یونیورسٹیوں تک لے جانا چاہی ں گے تاکہ مزیدبچوں کو فائدہ مل سکے‘‘
You must be logged in to post a comment.