علاقے میں سنسنی ‘گینگ وار کا شک‘پولیس ہر زوایہ سے کررہی ہے تفتیش‘ مقامی لوگوں نے پولیس کی کارکردگی پر اٹھایاسوال او رکہاکہ بھاری تعداد میں اسلحہ ان لوگوں تک کہاں اور کس راستے سے پہنچ رہا ہے۔
نئی دہلی۔شمال مشرقی دہلی کے ویلکم قبرستان کا پرسکون ماحول آج اس وقت ہنگامے میں تبدیل ہوگیا جب بعد نماز جمعہ بیٹی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے ائے محفوظ نامی 30سالہ نوجوان پر نامعلوم بدمعاشوں نے گولیاں برساکر موت کے گھاٹ اتاردیا ۔
اطلاع ملتے ہی دہلی کے اعلی افسران جائے واردات پر پہنچے اور نعش کو اپنی تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے جی ٹی بی اسپتال لے گئے۔ ماناجارہا ہے کہ پے درپے ہونے والے قاتلوں کی طرح یہ بھی گینگ وار کا معاملہ ہوسکتا ہے ۔
پولیس مختلف پہلوؤں سے معاملے کی جانچ کررہی ہے۔ قبرستان جیسی جگہ پر پیش ائے اس واقعہ سے جہاں لوگوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے وہیں پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں پچھلے دو سے تین مہینوں کے اندر درجن سے زائد قتل کی وارداتیں انجام دی جاچکی ہیں او رپولیس اس سلسلے میں لگام لگانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔
ویلکم ماتا چوک پر اپنی بیوی او ردوبچوں کے ساتھ رہنے والے والا محفوظ بیٹری رکشہ کرائے پر دے کر اپنی گرہستی چلا رہاتھا۔ قریبی رشتہ داروں نے بتایا کہ بظاہر اس کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا او راس کا اٹھنا بیٹھنا بھی غلط لوگوں کے ساتھ نہیں تھا۔
گذشتہ ایک سال پہلے اس کی بیٹی کا انتقال ہوگیاتھا جس کی قبر پر ہر جمعہ کو فاتح پڑھنے آتا تھا۔ آج بھی حسب معمول وہ نماز کے بعد قبرستان آیاتھا جہاں اس کے ساتھ اندوہناک حادثہ پیش آیا حالانکہ اس قت قبرستان میں فاتحہ پڑھنے والو ں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔
جب تک معاملے کو سمجھا جاتا بدمعاش اپنا کام کرکے فرار ہوچکے تھے۔ جو ان کی موت سے اہل خانہ اور رشتہ داروں میں کہرام مچا ہوا ہے ساتھ ہی پڑوس کے ہندو مسلم خاندان بھی غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
مقامی لوگ سوال پوچھ رہے کہ ڈراونے انداز میں چھاپا مار کاروائی میں معصوم نوجوانوں کو اٹھاکر دہشت گردی حملوں کو ناکام بنانے والی سکیورٹی ایجنسیاں ان معاملات پر قدغن کیوں نہیں لگا پارہی ہیں؟
آخر اس علاقے میں پنپنے والے خطرناک جرائم اور اس پر پولیس کی سرد مہری کا راز ہے؟ بھاری تعداد اسلحہ ان لوگو ں تک کہاں سے کیسے پہنچ رہا ہے؟۔انہں نے شک ظاہر کسی کیاکہ کہیں کسی ناپاک منصوبہ بندسازش کے تحت اس علاقے کو بدنام تو نہیں کیاجارہا ہے۔ہمارے سیاسی ‘ سماجی اور ملی رہنماؤں کو سرجوڑ کر اس نقطہ پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔