ویلن کے رول کا بے تاج بادشاہ امریش پوری، برسی کے موقع پر خاص پیشکش

بحیثیت ویلن فلم انڈسٹری میں امریش پوری نے جومقام حاصل کیا، وہ ان کی بہترین اداکاری اور سخت محنت کا نتیجہ تھا۔اسٹیج سے اپنی اداکاری کا سفر شروع کرنے والے امریش پوری نے اپنی ایسی شبیہ بنائی کہ فلم میں ان کی موجودگی ناظرین کو سنیماہال تک کھینچ لے جاتی تھی۔بلندآواز، پرکشش شخصیت اور مکالموں کی بہترین انداز میں ادائیگی، چہرے کی سختی اور آنکھوں کے خوف کے سبب وہ ایک عرصہ تک بالی ووڈ میں بطور ویلن بے تاج بادشاہ بنے رہے۔

22جون 1922 کو پنجاب کے نوشیرا گاؤں میں پیدا ہوئے امریش پوری کیریکٹر آرٹسٹ چمن پوری اور ویلن مدن پوری کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے فلموں کا رخ کیا۔لیکن بطور ہیرو مسترد کردیئے جانے کے بعد وہ فطری طور پر بہت مایوس ہوئے۔بادل نخواستہ انہوں نے اپنی معاشی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وزارت محنت میں ملازمت اختیار کرلی۔لیکن ان کا دل اداکاری کی طرف ہی اٹکا رہا۔آخر کار انہوں نے ایک دن ملازمت چھوڑدی اور اسٹیج اداکاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات ہدایت کار ستیہ دیو دوبے سے ہوئی۔ جنہوں نے امریش پوری کی اداکارانہ صلاحیتو ں کو بھانپتے ہوئے انہیں ڈرامہ ’اندھا یگ‘ میں کام کرنے کا موقع دیا ۔ اس کے بعد امریش پوری نے ان کے تقریباً 50 ڈراموں میں کیا۔ اپنے زمانے کے مشہور ویلن کے این سنگھ امریش پوری کے آئیڈیل تھے۔انہی سے متاثر ہوکر انہوں نے اپنے آپ کو ویلن کے روپ میں ڈھالا اور وہ اس میں اس قدر کامیاب ہوئے کہ فلم انڈسٹری میں ویلن کو اہم مقام اور رتبہ دیا جانے لگا۔

ڈراموں میں ان کی بہترین اداکاری کو دیکھ کر پہلی مرتبہ سکھ دیو نے فلم ’ریشما اور شیرا‘ میں ایک رول کے لیے سائن کیا۔لیکن کنڑ فلم ’کاڑو‘ سے امریش پوری کو فلمی دنیا میں پہچان ملی اور یہ فلم امریش پوری کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی۔ مشہور آرٹ فلم ساز شیام بینیگل نے جب یہ فلم دیکھی تو وہ ان کی اداکاری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے اور انہیں اپنی فلم ’منتھن‘ اور ’نشانت‘ میں کاسٹ کیا۔پھر تو ان کی کامیابی کا سفر شروع ہوگیا۔ شیام بینیگل ان کی اداکاری سے بے حدمتاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی ہر فلم میں امریش پوری کے لیے ایک رول مخصوص کردیا۔وجیتا‘ کلیگ‘ سورج کا ساتواں گھوڑا جیسی فلموں سے امریش پوری آرٹ فلموں کے ایک مضبوط اور کامیاب اداکار کے طورپر ابھرے۔اب امریش پوری ہدایت کار اورناظرین دونوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔جس فلم میں بھی انہیں اداکاری کا موقع ملا‘ اس میں انہوں نے اپنی ان مٹ چھاپ چھوڑی۔ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ناظرین ہیرو کے مقابلے انہیں زیادہ اہمیت دینے لگے۔ انہیں تقریباً ہر فلم میں امریش پوری کودیکھنے کی عادت سی پڑگئی تھی۔

فیروز خان کی فلم ’قربانی‘ سے ان کا فلمی سفر آرٹ سے کمرشیل فلموں کی جانب بڑھا اور ان کی شہرت اس وقت بلندیوں کو چھونے لگی جب انہوں نے فلم ’مسٹر انڈیا‘ میں موگیمبوکا مشکل ترین کردار اس قدر جادوئی انداز میں نبھایا کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے اور ہرخاص و عام کی زبان پر اس فلم کا ڈائیلاگ’موگیمبو خوش ہوا‘ عام ہوگیا۔اس فلم کے ہدایت کار شیکھر کپور کا کہنا ہے کہ لوگ مجھے مسٹر انڈیا کی بدولت جانتے ہیں۔ خود امریش پوری نے ’’مسٹر انڈیا‘‘کے بارے میں کہا تھا کہ یہ فلم میرے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس فلم نے میرے لیے کمرشیل فلموں کے دروازے کھول دیئے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پران کے بعد فلم انڈسٹری ویلن کے تعلق سے ایک غیریقینی صورت حال سے دوچار تھی۔ ایک خلا سامحسوس کیا جارہا تھا ۔اس وقت کوئی ویلن ایسا نہیں آرہا تھا جو پران کی کمی کوپر کرے۔امریش پوری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے نہ صرف اس کمی کو پورا کیا بلکہ جدید کھلنائکوں کے لیے باعث تقلید بھی بنے۔ امریش پوری کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی بھی رول کو ادا کرتے وقت اس میں پوری طرح رچ بس جاتے تھےاور کسی بھی کردار کو ادا کرنے سے قبل وہ بڑے انہماک کے ساتھ اسے سمجھتے تھے اور نہ صرف پوری ایمان داری سے اس پر محنت کرتے تھے بلکہ اس رول میں رچ بس جاتے تھے۔

سبھاش گھئی نے اپنی فلم’’ ودھاتا‘‘ کے لیے جب امریش پوری کوویلن کے مرکزی کردار کے لیے سائن کیا تو کئی لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا کہ کیا وہ شہنشاہ جذبات دلیپ کمار جیسے مشہور زمانہ چوٹی کے اداکار کے مقابلے میں اپنی اداکاری کا بھرپور مظاہرہ کرپائیں گے۔ لیکن امریش پوری نے ان خدشات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فلم ’’ودھاتا‘‘ میں نہ صرف کامیاب اداکاری کی بلکہ دلیپ کمار کے مقابلے پورے دم خم کے ساتھ کھڑے نظر آئے ۔اسی طرح فلم’’ شکتی‘‘ میں بھی دو کامیاب ہیرو۔۔ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کے مقابلے بہترین اداکاری کا مظاہر ہ کیا۔یہ امریش پوری کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ ناظرین نے بھی امریش پوری کی اداکاری کی خوب تعریف کی اور امریش پوری نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔

علاوہ ازیں کچھ فلموں میں انہوں نے حساس اور جذباتی اداکاری کی‘ وہیں انہوں نے’’ چاچی 420‘‘ اور ’’مسکراہٹ‘‘ میں مزاحیہ اداکاری کرکے ناظرین سے داد و تحسین وصول کی۔ انہوں نے ایمان دھرم‘آکروش‘ غدر‘ دامنی‘ دیو‘ جانی دشمن‘ دوستانہ‘ کلیگ‘ شکتی‘ دھرم ستیہ ‘ گاندھی‘ مسٹر انڈیا‘ شہنشاہ‘ وراثت‘ تری دیو‘ عجوبہ‘ سوداگر‘ مجھے کچھ کہنا ہے‘ دل والے دلہنیا لے جائیں گے ‘ چائنا گیٹ‘ گردش‘ پردیس‘ چاچی 420‘ لال بادشاہ‘ کوئلہ ‘ رام لکھن‘ گھائل‘ آج کا ارجن‘ میری جنگ‘ کرن ارجن‘ جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ تال‘ ہلچل سمیت تقریباً دو سوفلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ تقریباً چار دہائیوں تک اپنی اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں خاص شناخت بنانے والے امریش پوری 12 جنوری 2005 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔