دہلی کے ایک کالج میں طالبات کا مطالبہ ہے کہ کالج کے ہاسٹل میں ہونے والی ایک رسم جس میں مرد طالب علم ایک درخت سے کونڈم لٹکا کر ایک ‘حسین دیوتی‘ کی پوجا اس امید میں کرتے ہیں کہ ان کا کنوارپن ختم ہو جائے، کو ختم کیا جائے۔
بدھ کی رات احتجاج کرنے والی طالبات نے اس معروف ہندو کالج پر دھاوا بولا اور مطالبہ کیا کہ اس ‘مرد پرست‘ اور ‘پدر شاہی‘ تقریب کو ختم کیا جائے۔
کئی دہائیوں سے ویلنٹائن ڈے پر کالج کے مرد طلبہ ‘ورجن ٹری‘ یا آسانی کے لیے `وی ٹری‘ نامی ایک درخت کے سائے میں اس پوجا کا انعقاد کرتے ہیں۔
وہ اس درخت پر غبارے، رنگ برنگے ربن اور کونڈم لٹکاتے ہیں۔ اس درخت پر ہر سال ایک دمدمی مائی نامی دیوتی کی کوئی نئی علامتی تصویر بھی لگائی جاتی ہے جو کہ عموماً کوئی مشہور بالی وڈ اداکارہ ہوئی جس کا چناؤ طلبہ خود کرتے ہیں۔
ایک طالبعلم ہندو پنڈٹ کے لباس میں پوجا کرواتا ہے، سینکڑوں طلبہ اس حسین اور دلکش دیوتی کی شان میں گانے گاتے ہیں، اور ناچتے گاتے طالبہ میں پرشاد بھی بانٹا جاتا ہے۔
کئی سالوں سے جاری سے رسم کے بارے میں مشہور کیا گیا ہے کہ اس میں شریک ہونے والے طالبعلم آئندہ چھ ماہ میں ہی اپنا کنوارپن کھو دیتے ہیں۔
انڈیا جیسے قدامت پسند ملک میں جہاں شادی سے پہلے کسی کے ساتھ ہم بستری کو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے، کئی نوجوانوں سمجھتے ہیں کہ کوئی خدائی مداخلت ہی انھیں کسی کے ساتھ سونے کا موقع دے گی۔
اس سال اس تقریب کی منتظم بوائیز ہاسٹل یونین کے 19 سالہ صدر تیلی وانکٹیش اسے بے خطر شغل کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس رسم کا آغاز اس لیے ہوا کیونکہ لوگ محبت کا جشن منانا چاہتے ہیں اور سینکڑوں طلبہ اور طالبات ہر سال اس میں شریک ہوتے ہیں۔
تاہم طالبات کا کہنا ہے کہ یہ رسم عورتوں کو انسان کے بجائے بطور کوئی چیز پیش کرتی ہے اور انھیں ایک جنسی شہ بنا کر رکھ دیتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس میں شریک خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
اس تقریب کی مخالف مہم کی اہم رکن 20 سالہ آشی دتتا نے بی بی سی کو بتایا کہ مرد طالب علم کوئی ایسی بالی وڈ اداکارہ چنتے ہیں جو دلکشی کے اعتبار سے دمدمی مائی بننے کے قابل ہو اور اس تقریب کی رسومات براہمن انداز کی ذات پات کی رسومات جھلکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تقریب انتہائی شدید مرد پرست جوشیلے جارحانہ ماحول میں منعقد کی جاتی ہے اور گذشتہ چند سالوں میں خواتین کی شرکت پانچ فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ قدرے درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر آپ اس کی ماضی کی ویڈیوز دیکھیں تو آپ کو سینکڑوں لڑکوں میں مٹھی بھر لڑکیاں نظر آئیں گی۔
مگر تیلی وانکٹیش کا کہنا ہے کہ دتتا اس تقریب کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں اور جو طلبہ اس میں شریک ہویے ہیں وہ ملک کی مختلف ریاستوں سے آئے ہوتے ہیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سال ان کی کوشش ہے کہ اس تقریب میں اور زیادہ خواتین شرکت کریں۔
‘کیونکہ یہ محبت کا جشن منانے کا معاملہ ہے اس مرتبہ ہم نے ایک ایسا جوڑا چنا ہے جو کہ ایک طویل مدتی رشتے میں بندھے ہیں۔ اس تنقید کا سامنا کرنے کے لیے ہم جنس پرستوں کے پیار کو تسلیم نہیں کرتے، ہم پرائڈ چھنڈے لگا رہے ہیں ایل جی بی ٹی برادری کی حمایت میں پلے کارڈ لا رہے ہیں۔ ہم کونڈم محفوظ سیکس کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے لٹکاتے ہیں اور جنسی طور ہر منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں بھی آگاہی کے لیے لٹکاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس سال چنی جانے والی اداکارہ کی ایک ایسی تصویر استعمال کریں گے جس میں انھوں نے مکمل کپڑے پہننے ہوں اور ان کی شان میں گائی جانے والی نظموں کے اشعار کو دوبارہ لکھا گیا ہے تاکہ ان میں خواتین کے جسم کو کم بیان کیا جائے۔
مگر ادھر دتتا کہتی ہیں کہ جب تک یہ تقریب مکمل طور پر بند نہیں کر دی جائے گی وہ نہیں رکیں گی۔
ان کا اصرار ہے کہ ‘روایت اتنی مضبوط وجہ نہیں کہ اسے جاری رکھا جائے۔ یہ ایک آزاد خیال کالج ہے اور ہمیں خود چننا چاہیے کہ کونسی روایات کو اپنائیں اور کونسی چھوڑ دیں۔‘
منگل کے روز دونوں گروہ چند پروفیسروں کے ساتھ مل کر مذاکرات کی میز پر آئے مگر اب تک معاملے کا کوئی حل نہیں نکلا ہے۔
طالبات کی دعوت پر اس ملاقات کے موقع پر بولنے والے پروفیسر پی کے وجاین جو کہ خود 1980 کی دہائی میں اس کالج میں طالبعلم تھے جب یہ روایت شروع ہوئی۔ وہ کہتے ہیں ‘یہ شروع ایسے ہوا تھا کہ جوڑے اس درخت کے گرد بیٹھا کرتے تھے اور اس کا نام لوورز ٹری پڑ گیا۔ اس زمانے میں انڈیا میں ویلنٹائن ڈے کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ تقریبات زیادہ ترتیب وار ہونے لگیں اور درخت پر کونڈم لٹکائے جانے لگے اور خوبصورت سمجھی جانے والی خواتین کی تصاویر لگائی جانے لگیں۔‘
‘اور پھر طالبعلموں نے یہ ماننا شروع کر دیا کہ پرشاد کھانے سے کنوارپن ختم ہو جائے گا۔۔۔ لڑکوں کی قطاریں لگ گئیں اور کچھ لڑکیاں بھی آ گئیں۔‘
پروفیسر پی کے وجاین کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں لڑکیاں بہت کم شامل ہوتی ہیں اور انھوں نے یہاں تک سنا ہے کہ شریک ہونے والی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ جس انداز میں یہ تقریب منعقد کی جاتی ہے وہ انھیں بالکل بھاتی نہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی قسم کی اظہارِ رائے کو شفافیت کی بنا پر روکنے کے خلاف ہیں اور ان کی تجویز ہے کہ پوجا جاری رہے مگر بدلی جائے۔
‘میرے خیال میں طالبات کو نرم رویہ دیکھانا چاہیے اور اسے ممنوع کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے انھیں یہ تقریب اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے بدل دینا چاہیے۔‘
‘بدقسمتی سے اس وقت یہ مردانگی کا جشن ہے۔ اس میں خواتین کی شمولیت ہونی چاہیے۔ خواتین کو خواہش ظاہر کرنے والوں کے طور پر شامل ہونا چاہیے نہ کہ صرف مطلوب کے طور پر۔‘
You must be logged in to post a comment.