نئی دہلی: جرنلسٹ‘ اسکالرس‘ جہدکار ‘ انسانی حقوق کی لڑائی لڑنے والوں کو اس وقت تعجب ہوا جب انہوں نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے متعلق خبر باہر ائی جس میں چھ افراد پر 4نومبر کو ایک دیہاتی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیاگیا ہے۔ لسٹ میں چھ افراد بشمول اکیڈیمک نندنی سندنی سندرکے ساتھ پروفیسر ارچنا پرساد‘ ونیت تیواری‘ سنجے پراٹا: منجو کاواسہ اور منگل رام کرما کے نام شامل ہیں۔
اس ایف آئی آر کو ایک قبائیلی کی بیوی نے درج کروایا ہے۔جو پولیس کے کئی ایک واقعات میں ملوث ہونے پر مشتمل ہے۔حالیہ دنوں میں میڈیا کو دئے ہوئے ایک انٹرویو میں بیگل کی بیوی نے ایف ائی آر میں کسی کے نام درج کروانے سے واضح طور پر انکار کیا ہے۔ اس نے کہاکہ مصلح لوگوں نے اس کے شوہر پر حملے کیاتھا۔
این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اس نے بتایا کے چھتیس گڑ پولیس نے انہیں اس واقعہ کی اطلاع میڈیا اور کسی باہر والے کو دینے سے منع کیاتھا۔ اس نے کہاکہ میں مصلح ہجوم میں سے کسی کو نہیں جانتی جس نے اس کے شوہر منگل رام کرما پر حملہ کیاتھا۔
امریکی شہری کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ممتاز اکیڈیمک اور پروفیسر سوشیلوجی دہلی اسکول آف اکنامکس‘ دہلی یونیورسٹی نے ان پر لگائے گئے الزامات کے پس پرد ہ محرکات اور ہراسانی جو اس نے اور ان کے ساتھیوں نے جھیلی ہے
سوال: آپ کو ماخوذ کیاگیا تو آپ نے تعجب کیا
جواب:یقیناًکون سونچ سکتا ہے کہ 1500 کیلو میٹر دور پیش آئے قتل اور یہاں تک وہ اسے جانتا بھی نہیں ہے میں اسکو ماخوذ کیاجائے گا۔
سوال:کیا آپ اس مخصوص کیس کے بارے میں جانتے ہیں جس میں ایک قبائیلی کی موت واقع ہوئی ہے۔
جواب: نہیں میں نے صرف واقعہ کے بعد اس کے متعلقہ پڑھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ٹنگایہ گینگ کا لیڈر تھا۔
سوال : آپ نے وہاں پر کام کیا ہے ‘ کیا آپ کو کبھی دھمکیاں ملای؟ کس طرح کا دباؤ آپ پر ڈالا جاتا تھا؟
جواب : میں نے کئی مرتبہ پولیس ہراسانی کا سامنا کیا ہے یہ اسلئے کیونکہ مئی 2016 میں پہلی بار اپنی ٹیم کی حفاظت کے لئے فرضی نام کا استعمال کیاتھا۔یہ وجہہ نہیں ہوسکتی کہ مجھے دیہاتوں سے بات کرنے سے کوئی اسٹوری تیار کرنے کیلئے روکاجاسکے۔
سوال:آپ کی رپورٹ سچائی اور حقائق پر مبنی تھے تو کیا انتظامیہ ‘ سیاست داں‘ پولیس نے اس کو سنجیدگی کے ساتھ لیا؟
جواب :مئی کے مہینے میں پولیس نے ہم پر دیہاتیوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا الزام عائد کیاتاکہ وہ ماؤسٹوں کو مدد کریں ورنہ ان کے گاؤں نذر آتش کردئے جائیں گے۔انہوں نے دیہاتوں کے نام سے ایک جھوٹی شکایت بھی درج کروائی۔ جس کو بستر کے کلکٹر امیت کٹارایہ نے فیس بک پر پوسٹ کیااور ہماری یونیورسٹی کو بھی روانہ کیا۔پولیس نے ارچنا پرساد ( جے این یو) اور میرے پوسٹرس لگانے میں مستعدی دیکھائی اور ہمارے علامتی پتلے نذر آتش کروائے اور اب یہ ایف ائی آر۔
سوال : بستر اور اس کے اطراف واکناف میں ایسا کیا ہے جس کو آزاد صحافت اور جہدکاروں کے پہنچ سے منظم طریقے سے دوررکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ایسا کیا ہے جس کو چھپانے کو وہ لوگ کوشش کررہے ہیں؟
جواب: اس کیس میں یہ لوگ سلوا جوڈیم کے مصلح دیہاتیوں کا پس منظر اور ولیج ڈیفنس کمیٹی کی تشکیل کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ او ر یہ چاہتے ہیں عورتوں کی عصمت ریزی کریں اور دیہاتیوں کو سزاء دیں اور انہیں انکاونٹر میں ہلاک کردیں
سوال : آپ پر لگائے گئے الزامات ہراسانی کے علاوہ دیگر کو اس قسم کے معاملات سے دور رکھنے کی کوشش تو محسوس نہیں کررہے ہیں؟
جواب : اس میں وہ پہلے ہی کامیاب ہوچکے
نندنی سندر پروفیسر سوشیلوجی ‘ دہلی یونیورسٹی( انڈیا کی بستر میں جنگ کی مصنف)اور 2011 کے سلوا جوڈیم پر امتناع کیس میں حکومت چھتیس گڑ کے مقابلہ نندنی سندر اور دیگر نے ایک مقدمہ درج کیا ہے۔ارچنا پرساد پروفیسر سنٹر فار انفارمل سیکٹر اور لیبر اسٹاڈیز ( جے این یو)رکن اے ائی ڈی ڈبلیو اے‘ونت تیواری سابق جرنلسٹ اور جوشی ادھیکاری آف سوشیل اسٹاڈیز ‘ سی پی ائی رکن‘ سنجے پراٹا اسٹیٹ سکریٹری سی پی ائی ایم چھتیس گڑ
منجو کسوی سرپنچ گوپہیڈی گاؤں‘ سی پی ائی جہدکار سکما ضلع چھتیس گڑ
منگل رام کرما سابق رہائشی نامہ جو کسی مقام پر کارپینٹر کے خدمات انجام دے رہا ہے
بشکریہ دی سٹیزن