وہی ہوا ڈر جس کا ہم کو لاحق تھا۔ عبید اللہ خان اعظمی

یہ کیسا انصاف ہے کہ طلاق کے نافذ نہ ہونے اور میاں بیوی کی عدم علیحدگی کے باوجود شوہر کو تین سال کی سزا دی جائیگی
سب توقع ایوان زیرین ( لوک سبھا) میں تین طلاق مخالف بل کو منظوری دے دی گئی اور ابتدا سے ہی مسلمانان ہند کی جانب سے ہورہی اس کی مخالفت کو یکسر نظر انداز کردیاگا ۔ یہ شریعت اسلامی ( مسلم پرسنل لاء) میں صریح مداخلت ہے۔ مسلمان خواتین کی اکثریت مسلم پرسنل لاء کی حمایت میں ہے اور99فیصد سے بھی زائد مسلم خواتین نے اس بل کے خلاف شدید غم وغصہ کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے بیک زبان کہاہے کہ وہ طلاق ثلاثہ بل کے خلاف ہیں اور اسکو مکمل طور پر مسترد کرتی ہیں۔ یہ دستور ہند میں مسلمانوں کو دئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور مسلم پرسنل لاء کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ اس کی ساری ہی دفعات دستور ہند کی روح کو پامال ومجروح کرنے والی ہیں اور ان سے مسلم خواتین اور بچوں کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

ظاہرہے کہ اس بل کی وجہہ سے مسلم خواتین وبچوں کو کئی طرح کی قانونی پیچیدگیاں اور عائلی مسائل درپیش ائیں گی۔ یہ بل سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف ہے اور انڈین پینل کوڈ کی دفعات سے بھی متصادم نظر آتی ہے۔ اس بل کے تحت ایک وقت میں تین طلاق دینے کی صورت میں شوہر کو تین سال کے لئے جیل بھیجادیا جائے گا اور نان نفقہ کی ذمہ داری بھی شوہر کے ہی ذمہ ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ طلاق کے نافذ نہ ہونے اور میاں بیوی کی عدم علیحدگی کے باوجود شوہر کو تین سال کی سزا دی جائیگی۔خواتین کے کئی تنظیمیں جو زمینی سطح پر اصلاحِ معاشرہ کے لئے سرگرم ہیں وہ بھی اس بل کی پرزور شدید مخالفت کررہی ہیں۔

لیکن انکی منطقی استدلال اور عقل وفراست پر مبنی آواز کو کوحکومت سننے سے انکار کررہی ہے۔ دین سے بے بہرہ اور گمرہی کی شکار مٹھی بھر مسلم خواتین کو میڈیا میں پیش کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تمام مسلم عورتیں اس بل کی تائید میں ہیں۔ صرف نام کی ہی ان مسلم خواتین کو نہ تو مسلم پرسنل لاء کا کوئی علم ہے اور نہ ہی ہندوستانی مسلمان کہیں سے انہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں۔ فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں کھلونا بنیں ان عورتوں کا شریعت اسلامیہ سے دور دورت ک کوئی واسطہ نہیں لی گئی اور بغیر صلاح ومشورہ کے ہی اسے قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔

سکیولر پارٹیاں اور اراکین پارلیمان کی رائے تو چھوڑیے بی جے پی نے اپنی پارٹی کے بھی مسلم لیڈران کو ڈرافٹنگ کمیٹی جگہ نہیں دی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد صرف چارمہینوں میں ہی کابینہ میں اس بل کو منظوری دیکر پارلیمنٹ پاس بھی کردیا گیا۔ اس عجلت پسندی سے صاف سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی سرکار مسلم عورتوں کی ہمدردی کے نام پر مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کا سامان کررہی ہے ۔ تمام مسلمانان ہند کو اس بل سے سخت دلی تکلیف لاحق یوئی ہے اور وہ متفقہ طور پر اس کی مذمت اور مخالفت کررہے ہیں۔اس پورے بل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جن کی اگر اگوائی میں بی جے پی حکومت نے تین طلاق بل پیش اور پاس کیا ہے وہ خود اپنی بیوی کا طلا ق دے بغیر ہی چھوڑ ے ہوئے ہیں۔

ایوان زیریں میں اس مسلم مخالف بل کو پاس کردیاگیا ہے اب توقع یہ ہے کہایوان بالا( راجیہ سبھا) میں بھی یہ پاس ہوجائے گا۔ لوک سبھا میں کانگریس نے جس بے دلی کے ساتھ اس بل کو پارلیمانی اسٹنڈنگ کمیٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر اخیر میں نرم ہندوتوا کی اپنی دیرینہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اور عدالت عالیہ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بل کی تائید کا اعلان کیا اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ راجیہ سبھا سے بھی اسے منظوری مل جائے گی۔ یہ بل جو تضادات کا مجموعہ اور عدل وانصاف کا مذاق ہے اب مسلمانوں پر تھوپ دیاجائے گا اور ہمارے مذہبی رہنماصرف س بات کی ڈگڈگی بجائیں گے کہ یہ مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کا نمونہ ہے او رحکومت نے ان کی ایک بھی نہیں سنی ہے۔

عجب تماشہ ہے کہ نوبت کو اس حد تک پہنچانے کے بعد بھی اس کے نفاذ کو روکنے کے لئے کوئی عملی اقدام ہماری جانب سے نہیں ہورہا ہے ۔ یہ گونگی بہری او راندھی حکومت ہے اس تک اپنی بات پہنچانے اور منوانے کے لئے ہم سبھوں کو متحد ہونا پڑے گااور ملک میں موجود سکیولر فکر کے افراد کو شامل لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جمہوری طریقے اوردستوری انداز میں اس جنگ کو لڑنے کی ضرورت ہے ورنہ بھارتیا جنتا پارٹی اور آر ایس ایس تو یہی چاہتی ہے کہ مسلمان بے تاب اور مضطرب ہوکر سڑکوں پر اجائیں اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک فرقہ وارانہ تقسیم پیدا ہوجائے تاکہ 2019کا انتخابی معرکہ جیتنے میں اسے کوئی خاص دشواری نہ ہو۔