ولادت عیسیٰ مبارک ہو۔ شکیل شمسی

آج دنیابھر میں پھیلے دوعرب بیس کروڑ سے زیادہ عیسائی پیغمبر حضرت عیسی علیہ سلام کا یوم ولادت منارہے ہیں۔ یہ صرف عیسائیوں کو ہی فخر حاصل ہے کہ ان کے مذہبی تہوار کو دنیاکی دوسری قومیں بھی ہنسی خوشی کے ماحول میں مناتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عیسائی راہبوں او رمبلغوں نے بڑی ہوشیای کے ساتھ اپنی مذہبی تقریبا ت کو سیکولر پیراہن میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انہو ں نے جہاں جہاں بھی راج کیا وہاں اپنی رعایہ کے درمیان میں مذہبی تقریبا کو یاتو موسم سے جوڑ دیا یا پھر کسی مقامی تبدیلی کے معیار بنادیا۔ مثال کے طور پر اگر یوروپ میں انہوں نے کرسمس کو برف باری کی شروعات سے جوڑاتو ہندوستان جیسے ملک میں عیسی مسیح کے یوم ولادت کوبڑے دن کی شکل میں پیش کیا۔

اسی طرح انہو ں نے اپنے تہواروں کی طرف سے دوسرے مذاہب کو متوجہ کرنے کے لئے ان کی نئی نسل پر نشانہ لگایا ۔ عیسائی مشنریزنے سانتا کلاز کی کہانیوں میں حقیقی رنگ بھر کر اسکولوں کی معرفت بچوں کو یہ سمجھایاکہ کرسمس کی رات میں لال کپڑوں میں ملبوس سفید داڑھی او رسفید بالوں والا ایک عمردراز شخص بارہ سنگھوں والی بگھی میں بیٹھ کر ان کے گھر ائے گااور چپکے سے کوئی تحفہ رکھ کر چلا جائے گا۔ ویسے یوروپی اور اسکینڈ یونین ممالک سے بہت سے لوگ سانتا کلاز کے لباس پہن کر نکلتے بھی ہیں او ربچوں کے سامنے خود کو اصلی سانتا کلاز کی طرح پیش کرت ہیں۔

اسی طرح انہو ں نے اپنا کیلنڈر بھی اسی طرح بنایا ہے کہ اب حضرت عیسی کی چھٹی کے موقع پر ساری دنیانئے سال مناتی ہے اور انہو ں نے نئے سال کو اس طرح دنیامیں رائج کردیا کہ بہت سی قوموں میں ان کا مقامی کیلنڈر صرف مقامی مذہبی امور کے لئے مخصوص ہوکر رہ گیاہے باقی ساری تقریبات انگریزی تاریخوں کے مطابق ہی ہوتی ہیں۔جس طرح انہو ں نے اپنے لباس او راپنی تہذیب کو دوسری قوموں میں ایسے رائج کردیاکہ لوگ یہ بھی بھول گئے کہ پینٹ شرٹ او رسوٹ بوٹ کسی غیرقوم کا لباس تھا۔

اسی طرح کرسمس کو بھی کسی ایک مدہب کا تہوار نہیں سمجھتے ۔ ہمارے ہندوستان میں جن لوگوں نے عیسائی مشنریز کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے ان کوتو معلوم ہے کہ وہاں پر کرسمس کس پیمانہ پر منایاجاتا ہے او ربچوں کوکرسمس کیرول وغیرہ گانے کی طرح ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ وہاں پڑھ چکے لوگ جانتے ہیں کہ کرسمس کے پروگرام میں بلا تفریق مذہب وملت سبھی قوموں کے بچے حصہ لیتے ہی اور ان کو یہ لگتا بھی نہیں ہے کہ وہ کسی مذہبی تقریب کا حصہ بن گئے ہیں۔ ماں اور باپ بھی ہنسی خوشی ان پروگراموں میں حصہ لینے دیتے ہیں لیکن گذشتہ کچھ سالوں سے ہمارے مک کے انتہا پسند ہندو ان تقاریب کی مخالفت کرنے لگے ہیں اور اب تو ایک نیا طریقہ نکالا گیاہے کہ عیسائی فرقہ کی تقریب پر یہ الزام لگادیا جاتا ہے کہ جیسے وہاں تبدیلی مذہب کا کوئی پروگرام چل رہا ہے۔

اصل میں ملک کی سخت گیر تنظیموں کو لگ رہا ہے کہ عیسائی فرقہ کے ماننے والے یہاں کے دلتوں اورپسماندہ افراد کو لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ اس لئے انہو ں نے جس طرح مسلمانو ں پر لو جہاد اور گاؤکشی کا جھوٹا الزام لگاکر یلغار کررکھی ہے اسی طرح گھر واپسی کے نام پر عیسائی فرقہ کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں میں بھی کچ لوگ ایسے ہی جو عیسائی مشنری کی مہم سے اپنے لوگوں کوآگاہ کرتے رہتے ہیں لیکن زیادہ تر مسلمانوں کو ایسی تقریبات سے کسی قسم کا خوف نہیں ہے۔ ان کولگتا ہے کہ ان کے بچوں کوایمان اتنا کمزور نہیں کہ وہ کسی اسکول کی تقریب میں حصہ لینے سے بہک جائیں گے لیکن ہندوفرقہ میںیہ ڈر بہت بری طرح سے بیٹھا ہوا ہے کہ عیسائی مذہب کے لوگ تبدیلی مذہب کروانے لگے ہوئے ہیں۔

اسی کو روکنے کے لئے پہلے قانون بنائے گئے لیکن جب اس سے بھی کام نہیں چلاتو زور زبردستی او رغنڈہ گردی کے سہارے عیسائی فرقہ میں دہشت پیدا کی جارہی ہے ۔ واضح ہوکہ کئی سخت گیر ہندو جماعتوں نے کرسمس تقریبا ت میں خلل ڈالنے کا اشارہ بھی دیا ہے جس سے عیسائیوں میں بے چینی ہے ۔ ہم کو لگتا ہے کہ آج کئی جگہوں پر اس فرقے کے لوگوں کوستایاجاسکتا ہے۔ اس لئے حکومت کی یہ ذمہ دار ی ہے کہ وہ ملک کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں سے سختی سے پیش ائے۔ جب تک اس ملک میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی اور حق سب فرقوں کو برابر سے حاصل ہے تب تک کسی مذہب پر جھوٹے الزام لگاکر اس کے خلاف مہم چلانا ٹھیک نہیں۔ اس سے ہندوستان کے باہر ملک کی شبیہ خراب ہوگی۔