وزیر اعظم اور بی جے پی کی جانب سے سردار پٹیل کو اپنا ائیکان بناکر پیش کرنے کے پس پردہ سچائی کا خلاصہ ۔پروفیسر رام پنیانی کا ویڈیو

حیدرآباد۔بی جے پی اور اس کی تنظیم مادر آر ایس ایس کا جنگ آزادی میں کوئی رول نہیں تھا ‘ اس لئے انہوں نے نہرو کے دور کو بدنام کرنے کے لئے اپنے ائیکان کے طور پر سردار پٹیل کا انتخاب کیا ہے۔ اسی کے لئے وزیر اعظم مودی اور مذکورہ سنگھ پریوار کشمیر اور پاکستان کے مسلئے کو لے کر فرضی پروپگنڈہ کرتے ہیں جس کے آج ہم مشکلات کا سامنا کررہے ہیں وہ نہرو کا فیصلہ ہے۔

 

اسی راستے پر چلتے ہوئے بی جہ پی سردار پٹیل کو ائیکان کی طرح پیش کرتے ہیں‘ جس کے سونچ اس وقت کے سنگھ پریوار اور ان کی سیاسی بازو بی جے پی سے بالکل مختلف تھی۔بی جے پی مسلسل نہر و نشانہ بناتے ہوئے کشمیر اور آزادی کے دوران ملک کی تقسیم کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نہرو کا فیصلہ تھا جس کے سبب موجودہ دور میں ہم کشمیر بحران اور مسئلہ پاکستان سے دوچار ہیں۔

 

وہ کہتے ہیں کہ اگر سردار پٹیل ملک کے پہلے وزیر اعظم ہوتے ‘ تو ملک کے حالات کچھ اور ہوتے اور مکمل کشمیر ہمارے پاس ہوتا۔

مگر رام پنیانی جیسے مورخین بی جے پی کے بے بنیاد بیانات کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں بی جے پی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ مخالف برٹش تحریکات میں حصہ لینے والے کسی بھی قائد کو وہ اپنا ائیکان بنائے۔اس کے علاوہ سنگھ پریوار کے نظریہ ساز وی ڈی ساورکر نے ایک مرتبہ کہاتھا کہ ’’ یہاں پر دوقومیں ہیں‘ ایک ہندواوردوسرے مسلم‘‘اور ہندؤں کے ساتھ مسلمانوں کو ایک ساتھ نہ رہنے کا حوالہ دیاتھا۔

 

ہندوستان کی تقسیم کے ذمہ دار وہ نہر و نہیں تھے‘ مگر تقسیم کرو اور حکومت کرو کی منظم پالیسی کے علاوہ دوسرے جناح جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کے دوران دوملکی نظریہ پیدا کیا ‘ جو ملک کی تقسیم تھا۔ نہرو خود مختار ریاستوں کی انفرادیت کے متعلق کابینہ کے مشن تک نہیں چاہتے تھے۔ نہرو او رپٹیل کاشمار ان مجاہدین آزاد ہوتا ہے جنھوں نے ملک کو متحد کرنے کے لئے کام کیا ہے۔

 

وہ مرکز کو مضبوط بناتے ہوئے ملک کے انتظامیہ کو بہتر بنانا چاہتے تھے۔سال1940کے دہے میں فرقہ پرست طاقتیں مضبوط ہوئیں جس کی وجہہ پاکستان مسلمانوں کے لئے اور ہندوستان ہندوؤں کے لئے جذبات کو فروغ دیاگیاتھا۔جب ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم کی تجویز پیش کی ‘ تو کانگریس نے کافی تاخیر سے فیصلہ لیا۔ملک کی تقسیم کے متعلق تجویز کوکانگریس کی جانب سے سب سے پہلے قبول کرنے والے سردار پٹیل تھے جو کانگریس کے ایک بڑی لیڈر تھے۔یہ بات مولانا آزاد اور ایم جے اکبر کی کتاب میں یہ بات صاف طور پر شامل کی گئی ہے۔

 

دونوں واقعات چاہئے وہ کشمیر کے ہوں یا پھر تقسیم ہند کے کانگریس نے اس کو قبول کرنے میں غیر ارادے ردعمل دیاتھا۔نریندر مود ی کی پارٹی کے ایک او رلیڈر جسونت سنگھ نے جناح‘ تقسیم ہند اورآزادی کی جدوجہد کے متعلق اسی سوال پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں تقسیم ہند کے لئے سردار پٹیل کے رول کو اجاگر کیا ہے۔جب مودی چیف منسٹر تھے اس وقت انہوں نے اس کتاب پر گجرات میں امتناع عائد کردیاتھا۔

 

مودی اور تمام ہندوقوم پرست سیاست دانوں کی جانب سے اس ضمن میں دئے جانے والے بیانات حقائق سے دور ہیں۔ تقسیم ہندو کی حقیقت برصغیر میں فرقہ پرست سیاست اور تقسیم کرو حکومت کرو کی برٹش پالیسی کا نتیجہ ہے۔انتظامیہ طور پر نہرو اور پٹیل کو یہ فیصلہ قبول کرنا ہی تھا کیونکہ بعض چیز وں کو نذر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔