جب ان کا بیٹا اپنے گھر کی طرف واپس لوٹ رہا تھا ‘ تو اس کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ متوفی بیٹے کی ما ں رقعیہ کہہ رہی ہیں کہ’’ان لوگوں نے میرے بیٹے کو قتل کرکے اس نالے میں پھینک دیا‘‘۔ تین کم عمرافراد نے اس کو گولی ماری اور اس کے پاس موجود تمام رقم چوری کرلی اور وہ کھانا بھی چورا لیا جس اس کے اور اس کی بیوی کے لئے خریدی تھی
چورالیا۔جب رقعیہ کاسامنا قتل کے وقت (چودہ سال کی عمر)کے قاتل سے ہوا تو جو کچھ متوفی کی ماں نے کہاکہ وہ سن کر یقینادل او رذہن دونو ں مغلوب ہوجائیں گے۔سب سے پہلے رقعیہ نے قاتل نوجوانوں کو گلے لگایا‘ قاتل کی ماں کوبھی انہوں نے گلے لگایااورکہاکہ’’ میں تم سے نفرت نہیں کرتی‘میں تم سے نفرت نہیں کرسکتی ‘ کیونکہ یہ میرے تعلیمات کا حصہ نہیں ہے‘ تمہارے سے رحمدلی کا اظہار کرنا میری تعلیمات کا حصہ ہے۔
تم ایک چھوٹے بچے ہو اب بھی کم عمر ہو‘اس کی موت کا وقت پہلے سے مقرر تھا‘ہوسکتا ہے وہ تمہاری زندگی بچانے کے لئے پیش آیا واقعہ ہے‘کیونکہ اس معاشرے کے ہاتھوں تمہارا قتل نہ ہوجائے۔میں میرے گھر والے اور میرا سماج تمہاری بہتر زندگی کی توقع کرتا ہے۔تم کسی ایک زندگی کو ختم نہیں کرتے اس کے پیچھے بہت ساری اور زندگیاں ہوتی ہیں۔ اس پر کوئی بدلہ نہیں ہوتا‘ بدلہ سب کچھ نہیں ہے‘ بدلے سے میرا بیٹا واپس تو نہیں ائے گا‘‘ ۔
جس پر رقعیہ کے بیٹا کا قاتل نے کہاکہ محترمہ عبدل میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔
اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرنے اور اس کوگلے لگاکر اس کے بہتر مستقبل کے لئے بیک تمناؤں کا اظہا ر کرنابہت بڑے دل کا شخص ہرکرسکتا ہے۔ رقعیہ کا یہ اقدام عین اسلامی تعلیمات کا حصہ اور نبی دوجہاںؐ کے سنت مقبول ہے جس پر عمل کرتے ہوئے رقعیہ نے اسلامی تعلیمات کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا ہے
You must be logged in to post a comment.