وادی میں قیام امن ضروری

جموں وکشمیر کی صورت ححال روز بہ روز سنگین ہوتی جارہی ہے۔ نومبر10کو تاز ہ واقعہ میں سکیورٹی فورسیز نے حز ب المجاہدین کے دو مبینہ دہشت گردووں کو مارا گرایا ہے۔ ہفتہ کو ہی ریاست کے سندرینی سیکٹر میں لان آف کنٹرول کے پاس سکیورٹی فورسس کا ایک جوان بھی گھات لگاکر چلائی گولی میں جاں بحق ہوگیا۔

کاروائی اور تلاشی مہم کے دوران جہاں دہشت گرد مارے جارہے ہیں ‘ وہیں ہمارے جوانوں کی مسلسل ہلاکتیں بھی حکومت کی پالیسی پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں۔ پیچیدہ ہوتے جارہے اس مسئلہ کی ایک بڑی وجہہ یہ بھی ہے کہ دہشت گرد ی سے نمٹنے کے سلسلے میں وہاں ے عام شہری بھی حکومت کی کاروائی کی زد میںآتے جارہے ہیں اور دوطرفہ محاذ میں تشدد کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہہ سے حکومت کو ان کی مطلوبہ حمایت نہیں مل پاتی ہے۔

ان حالات میں وہاں کسی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں سے بھی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کی وکالت جموں او رکشمیر کے سابق وزیراعلی عمرعبداللہ نے بھی کی ہے۔عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی حکومت جب افغانستان میں قیام ام کے لئے طالبان سے مذاکرات کرسکتی ہے تو اپنی ہی ریاست میں قیام امن کے لئے بات چین میں کون سی رکاوٹ ہے؟۔ کشمیر پر مرکزی حکومت کے رویہ سے عمر عبداللہ ناراض ہیں۔

انہو ں نے مودی حکومت پر طالبان کے ساتھ بروز جمعہ 9نومبر روس میں ہونے والے مذاکرات پر سوال اٹھائے ہیں۔ عمر عبداللہ نے حکومت سے پوچھا ہے کہ جب افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے طالبان کے ساتھ با ت چیت کی جاسکتی ہے تو پھر وہ اب تک کشمیر کے مسئلے پر کیو ں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

روس میں ہونے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حکومت ہند کی شمولیت پر عمر عبداللہ کا موقف ہے کہ طالبان سے بات کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت وادی کے علیحدگی پسندلیڈروں سے بات کرکے ان کے مسائل حل کرے او روادی میں امن قام کرنے میں مدد دے۔

سال1999میں انڈین ائیر لائنز کا طیارہ ائی سی 814کو ہائی جیک کرنے کے بعد ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہندوستان کا کوئی باضابطہ نمائندہ طالبان سے ملاہو اس سے بات چیت میں شامل ہوا ہو۔ عمر عبداللہ کے اس سوال کو سرسری طور پر نہیں لیاجاسکتاہے۔

کل اگر علیحدگی پسند لیڈروں نے اقوام متحدہ یاکسی دسری بین الاقوامی روم پر یہ مسئلہ اٹھادیا کہ مودی حکومت ان سے بات چیت کرنے کے لئے اب تک سامنے نہیں ائی ہے تو اس سح حکومت کی ہی سبکی ہوگی۔

ان سب کے ساتھ ساتھ ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک کا یہ بیان کچھ حد تک امید افزا کہاجاسکتا ہے کہ انتظامیہ اگلے چار چھ ہفتوں میں جموں وکشمیر کے سبھی فریقوں سے بات چیت کرنے کے لئے ماحول بنانے کی کوشش کرے گا۔

گذشتہ جمعہ کو ریاست میں نظم ونسق کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد گورنر کے اس بیان سے امکا ن ہے کہ مذاکرات کی سمت کوئی قدم اٹھایاجائے گا۔یہ کوئی راز نہیں ہے کہ کشمیر میں بات چیت نہ ہونے کی وجہہ سے پیدا ہونے والی بے اطمینانی کا فائدہ پاکستانی ٹھکانوں سے کام کرنے والے لشکر طیبہ او رحزب المجاہدین جیسی کئی دہشت پسندگروہ اٹھاتے ہیں او رنوجوانوں کونام نہاد آزادی کا سراب دیکھا کر انہیں اپنی جانب کھینچتے ہیں۔

یہی وجہہ ہے کہ دہشت گردگردہوں میں کچھ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بھی شامل ہونے کی خبر یں ائیں ہیں۔یقینی طور پر یہ انتہائی تشویش ناک امر ہے ۔کیونکہ ایسے نوجوان باقی گمراہ نوجوانوں کے سامنے ایک متبادل پیش کردیتے ہیں۔