راجناتھ سنگھ کی موجودگی میں پریس کانفرنس سے ناراض ہوکر چلی گئیں۔ سنگباری واقعات کی مذمت
سرینگر 25 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے آج شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اخباری نمائندوں نے جب ان سے وادیٔ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں سوال کیا تو وہ ناراض ہوگئیں اور بھڑک کر کانفرنس ہال سے چلی گئیں۔ وہ آج یہاں مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔ جب صحافیوں نے ریاست جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے میں ان کے رول کے بارے میں سوال کیا تو وہ آگ بگولہ ہوگئیں اور اچانک اُٹھ کھڑی ہوئیں اور کہاکہ ’’تھینک ی و‘‘ سوال کا جواب دینے کے بعد راج ناتھ سنگھ ابھی بیٹھے ہی ہوئے تھے کہ وہ ناراضگی کے عالم میں کانفرنس ہال سے باہر چلی گئیں۔ ان کی رہائش گاہ پر منعقدہ کانفرنس بھی افراتفری میں ختم کردی گئی۔ جبکہ سوالات کا جواب دیتے ہوئے محبوبہ مفتی نے وادی میں سنگباری کی صورتحال کی مذمت کی اور تشدد کے واقعات پر نکتہ چینی کی۔
گزشتہ 47 دنوں سے وادیٔ کشمیر میں شدید تشدد، سنگباری کے واقعات ہورہے ہیں۔ تشدد کی وجہ سے اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ہجوم کی جانب سے پولیس اسٹیشنوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ پولیس پکٹس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انھوں نے قبل ازیں دیئے گئے اپنے بیان کی وضاحت کی کہ وادی میں صرف پانچ فیصد لوگ ہی احتجاج کررہے ہیں۔ ماباقی 95 فیصد آبادی مسئلہ کا پرامن حل چاہتی ہے۔ ان پانچ فیصد لوگوں نے تشدد میں ملوث ہوکر مسئلہ کو ’’ہائی جیک‘‘ کرلیا ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہاکہ میں بھی مسئلہ کشمیر کی یکسوئی کی خواہاں ہوں اس کے لئے بات چیت ہونی چاہئے۔ لیکن سنگباری کرنے سے کیمپوں پر حملے کرنے سے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ ہم اس مسئلہ کو کنارہ کش نہیں کررہے ہیں۔ ہم مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ چیف منسٹر نے وادی میں پائی جانے والی صورتحال پر وضاحت کرنا چاہا اور کہاکہ جو لوگ مررہے ہیں خاص کر نوجوانوں کی موت پر شوروغل مچایا جارہا ہے
اور اب اموات واقعی افسوسناک ہیں۔ اس تشدد میں مرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ان کی موت کا بدلہ سینے کے لئے لوگ سڑک پر نکل آرہے ہیں۔ سکیورٹی اداروں پر حملے کررہے ہیں عوام سڑکوں پر نکل آنے سے کرفیو نافذ کیا جارہا ہے۔ کیا یہ بچے آرمی کیمپس کو چاکلیٹ خریدنے جاتے ہیں۔ کیا 15 سال کا لرکا جس نے دھمال ہانجی پورہ (جنوبی کشمیر میں) پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا تھا وہاں دودھ لینے کے لئے گیا تھا۔ عین اس وقت انھوں نے اس ماہ کے اوائل میں ضلع پلوامہ کے علاقہ کھرو میں ایک لکچرر کی موت میں ملوث سکیورٹی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی حمایت کی۔ یہ لکچرر کی ہلاکت کا کیس ہے اس پر برہمی کا اظہار ہونا لازمی ہے۔ خاطیوں کو سزا دی جانی چاہئے۔ میں بھی خاطیوں کو سزا دینے کے حق میں ہوں۔ جب ایک صحافی نے ان سے کشمیر کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے میں ان کے رول کے بارے میں سوالات کئے تو اس پر راجناتھ سنگھ نے صحافیوں کو بتانے کی کوشش کی۔ محبوبہ مفتی جی بھی آپ ہی کے شہر کی ہیں تاہم محبوبہ مفتی چراغ پا ہوگئیں اور کہاکہ آخر وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں نے ٹاسک فورس سے جنوبی کشمیر کے نوجوانوں کو بچایا ہے؟ اس موقع پر راجناتھ سنگھ بار بار محبوبہ مفتی کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے تھے اور محبوبہ مفتی کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے۔ لیکن محبوبہ مفتی نے کہاکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے دنیا میں کہیں بھی تشدد نہیں ہورہا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اس مسئلہ کو بھڑکایا جائے تو پھر تشدوہی لوگ برپا کریں گے۔ ایک صحافی نے کہاکہ محبوبہ مفتی نے اقتدار پر آنے کے بعد اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے۔ جب وہ 2010 ء میں اپوزیشن لیڈر تھے تو تشدد کے واقعات پر عمر عبداللہ حکومت پر تنقید کی تھی، اب وہی حربہ خود استعمال کررہی ہیں۔