قومی سطح پر کانگریس ایک تاریخی آزاد چہرہ ہے اور مخصوص ریاستوں میں موقف گائے کی شبہہ کے ساتھ وہ آگے بڑھتی ہے۔
حیدرآباد۔ گائے ذبیحہ کے الزام میں کانگریس کی حکومت مدھیہ پردیش کی جانب سے تین لوگوں کو این ایس اے کے تحت کاروائی اور چیف منسٹر کمل ناتھ کا فوری طور پر گائے کے متعلق چوکنا رہنے کابھروسہ دلانا کوئی خاص بات نہیں ہے۔
کانگریس کی دنیا میں اس کو ’’ متوازن رویہ‘‘ کہتے ہیں ۔ اس سے پارٹی کی گائے سیاست کے رویہ کی عکاسی ہوتی ہے۔ کانگریس کے سکیولرزم ورژن میں گائے کس طرح حکمت عملی کاحصہ ثابت ہوتی ہے؟ اس کا جواب دو مختلف سیاسی تحریکوں میں گائے ذبیحہ پر مکمل امتناع۔
مذکورہ 1950-60کے تحریک جب ایک ’’ قومی بنام علاقائی‘‘ میں گائے پر سیاست قدرتی بن گیااور 1967کی تحریک میں جب کانگریس نے راست طور پر گائے کا موضوع زیربحث لایا تاکہ ’’ ہندؤوں کے استحصال ‘‘کی سیاست کو اس میں ملوث کیاجائے
قومی برائے علاقائی ’ گائے‘
تقسیم ہند کے بعد پہلے لوک سبھا کے اندر دستور اسمبلی کے دوران قانونی بحث ہوئی ‘ او راس کا عنوان گائے کا تحفظ تھا جس کو کانگریس کی گائے پر سیاست کے متعلق پہلی تحریک کا نام دیا گیا۔اس وقت کانگریس میں دو گروہ تھے ۔
سابق وزیر اعظم جواہرلال نہرو کا ایک گروپ جو زراعی معیشت اور انمل ہسبنڈری کو ماڈرن اور سائنسٹیفک خطوط پر میویشیوں کی دولت کو فروغ دینے کے لئے شدت دستور نو کی حمایت کررہاتھا۔
مذکورہ کانگریس کے روایتی شدت پسند جس کی قیادت پی ٹنڈن ‘ سیٹھ گویند داس اور پنڈت ٹھاکر داس بھارگو کررہے تھے‘ تاہم مطالبہ تھا کہ گائے کو قومی جانور قراردیا جائے ۔ اس میں یہ بحث ہوئی کے گائے کا دودھ کو قومی صحت کے لئے گوشت کے استعمال کے بنسبت اہمیت دی جائے ۔
اس پر کارگرد سیاسی حکمت عملی 1950کے دہے میں منظرعام پر ائی۔ مرکزی حکومت نہرو کی قیادت میں گائے کی معاشی اہمیت کے بحث کو برقرار رکھا۔
پہلے دو پانچ سالہ منصوبہ(1951سے 1956اور 1956سے 1961)میں اس تجویز کو پوری طرح مسترد کردیا کہ گائے او ردیگر میویشیوں کے ذبیحہ پر مکمل امتناع عائد کیاجائے ۔یقیناًپہلے پانچ سالہ زمرہ بندی منصونے میں اس پر زورد یا کہ امتناع سے زراعی معیشت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔
اس بات پر غور کیاگیا کہ ’ دستیاب چارہ باقی میویشیوں کے لئے کافی نہیں ہوگا۔وہیں اگر چہ کہ بہتر دودھ دینے والے گائیوں اور کام کرنے والے بیلوں کی کمی ہے تو ناکارہ اور غیر ضروری جانوروں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔اور زائد جانوروں کی موجودگی چارہ کی کمی بہتر غذا کی فراہمی میں رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔
مگر کانگریس کی زیرقیادت کئی ریاستوں بالخصوص شمالی ہند میں( اترپردیش‘ بہار‘ اور مدھیہ پردیش) میں حالات کچھ اور ہی بیان کررہے تھے اور انہوں نے ان دس سالوں میں میویشوں کے متعلق سخت قانون پربناکر اس پر کام کیاہے۔مذکورہ قانون کے تحت نہ صرف گائے ذبیحہ پر روک لگادی گئی تھی بلکہ دیگر میویشیوں کو ذبح کرنے پر بھی ممانعت تھی۔
بڑے جانوروں(گائے او رٹھیک اسی طرح بھینسوں) کے ذبیحہ پر اس طرح کاسخت قانون کئی لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوا ( بالخصوص مسلمان اور دلت) میٹ ٹریڈ او رمعاون صنعت سے جڑا ہوئے تھے۔
کانگریس کا ’’ گائے اور بچھڑا‘‘۔
اندرا گاندھی نے 1960کے دہے میں گائے کی سیاست کو ایک نیا موڑ دیاتھا۔ اس وقت تک آر ایس ایس /بی جے ایس نے گائے کی سیاست میں ماہر کے طور پر اپنی پکڑ مضبوط کرلی تھی۔
اس کانتیجہ یہ نکالا کہ 1966میں گائے پر مکمل امتناع کے مطالبہ کے ساتھ پارلیمنٹ ہاوز کے قریب سادھو سنتوں کا مشہور احتجاج ( جس میں سات مظاہرین کی موت او رایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ مگر کانگریس نے اگلے الیکشن میں بھارتیہ جن سنگھ کو اس حادثہ کا استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی۔
حکومت نے گائے کے اوپر ایک کمیٹی( دی سرکاری کمیٹی) تشکیل دی اور سروادالیا گاؤ رکشہ مہاابھیان سمیتی کے نمائندوں کو مدعو کیا۔یہ وہ تنظیم تھی جس کا قیام آر ایس ایس نے کیاتھا اور اس کو دوسری ہندو گروپس کی بھی حمایت حاصل تھی۔
اندرا گاندھی کی زیرقیادت کانگریس کے لئے نیا نشانہ کانگریس کی گائے کے نام پر سیاست میں بھی نیا کارنامہ ثابت ہوا ۔
جب کانگریس ( او) نے پارٹی کے قدیم بیلوں کاجوڑا بیل بنڈی کھینچتا ہوا پر کانگریس کی تقسیم کے بعد اپنا دعوی پیش کیا‘ اندا گاندھی کی زیرقیادت کانگریس نے ’’ گائے اور بچھڑا ‘‘ کو پارٹی کے نشان کے طور پر حاصل کرلیا۔ او رپارٹی نے اس کے لئے ایک دلچسپ نعرہ بھی لگانا شروع کردیا۔
ووٹ برائے بچھڑا ور گائے ‘ باقی سب کو بھول جائیں۔
سال2019میں گائے اور کانگریس۔
کانگریس کی معاصر گائے کی سیاست جس کے دوبنیادی عنصر تھے۔پہلا کانگریس کی ترجیحات میں گائے سے متعلق مسائل میں نظریاتی طور پر برہم گروپس اور افراد کا انتخاب کرنا رہا۔ اس قدم نے ’’ ہندوؤں کی خوش آمد‘‘ او ر’’ مسلمانوں کی خوش آمد‘‘ کے درمیان پارٹی کا توازن برقرار رکھا۔
دوسراکانگریس نے قومی سطح پر اپنا چہرہ لیبرل/سیکولر بنائے رکھا‘ جب کے ریاستوں میں ا س کا منفرد موقف رہا۔ یہ ’’ سہولت کی سیاست‘ نے کانگریس کو ریاستی سطح پر الکٹورل فائدے کے مسائل میں مدد کی۔
مثال کے طور پر موافق گائے صرف ہندو بیلٹ میں تک ہی محدود رہا‘ جہاں پر گائے ہمیشہ ہندو مسلم تضاد کے حصہ کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔
مگر یہ رویہ جنوبی ہندوستان میں ناکارہ ثابت ہوا ‘ اور شمال مشرقی ریاستوں میں بھی تبدیل ہوا ۔
کانگریس کی گائے پر سیاست کارآمد رہے ۔ بی جے پی کی طرح نہیں( جو مسلمانوں سے راست طور پر رجوع ہونے سے کتراتی رہی) ‘ مذکورہ کانگریس کے لئے مسلمانوں اور ’گائے بھگتو‘ دونوں کے ساتھ جڑنے میں کوئی دشواری پیش نہیں ائی۔
شدت پسند ہندوتوا کی خوش آمد بالخصوص گائے کے نام پر ‘ یہ کانگریس جب کبھی دباؤ محسوس کرتی ہے تو رجوع ہونے کاکا کیاجاتا ۔ اس کی وجہہ سے کانگریس کی قومی سطح پر شبہہ مسلمانوں کی محافظ کے طور پر منظرعام پر ائی۔