نڈر آزاد صحافی اور طاقتور آواز کے حامل شجاعت بخاری

ممتاز صحافی اور ’رائزنگ کشمیر‘ کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کے دو پی ایس اوس محافظ تھے ‘ جن کی ان کے نیوز پیپر کے دفتر کے باہر جموں اور کشمیر میں گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔
سری نگر۔ عید سے عین ایک روز رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کی سری نگر کے قلب میں پیش ائے موت ریاست کا بڑا نقصان ہے۔ کشمیر میں جاری بحران کا وہ تازہ شکار ہیں۔کشمیر کی سیاست پر بے باکی کے ساتھ لکھنے والے شجاعت بخاری ایک بہادر اور نڈر صحافی تھے۔

وادی کی سیول سوسائٹی اس بے باک آوا ز کی اب ہمیشہ کمی محسوس کریگی۔مجھے یاد آتا ہے وہ وقت جب مفتی محمد سعید چیف منسٹر تھے اور انہوں نے شجاعت سے جموں کے سرکاری اسپتال کے ائی سی یو میں جاکر ملاقات کی تھی یہ تین سال قبل کی بات ہے‘ جب شجاعت بے لگام ضیابطیس اور ہائپر ٹینشن کی وجہہ سے مفلوج ہوگئے تھے۔میں سمجھاتھا کہ اس کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔

اور اب بھی ان کی قوت ارادے قابل ذکر ہے‘ وہ زندہ رہتے اور بطور ایک ایڈیٹر اور صحافی کی اونچائیاں بناتے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔ان کا فیس بک پوسٹ اس بات کا ان کے تجربے کا انکشاف کرتا ہے۔

پچھلے ماہ ہی وہ گلوبال ایڈیٹرس کی لیسبن سمیت میں تھے۔شجاعت کئی سالوں سے دی ہندو اور فرنٹ لائن کے بیور و چیف رہے اور یہ سلسلہ حال تک بھی برقرار رہا۔ مگر ان کی قابلیت کو اعزاز ممتا ز صحافی وید بھاسین اور ان کے چاہتے کشمیر ٹائمز نے بخشا۔

انہو ں نے انگریزی روزنامہ رائزنگ کشمیر کی بنیاد ڈالی اس کے بعدبلند کشمیر( اُردو) پھر سنگرمال( کشمیر) زبان میں اشاعت شروع کردی۔شجاعت کے لئے اپنی آزادی کو برقرار رکھنا آسان نہیں تھا۔ ان کی بھائی منسٹر اور موجود ہ برسراقتدار پارٹی پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹ کے سینئر لیڈر ہیں۔

مگر یہ ان کی قابلیت کو ایک خراج ہی ہوگا کہ کشمیر کی بے ڈھنگی سیاست میں ان کے ٹوئٹس کو ان دنوں نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ دوبارہ ٹوئٹ کررہے تھے۔بہت کم لوگ یہ شجاعت کی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وہ انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل تھی اور وہ تعلیمی اور تہذیبی جہدکار تھے۔

شجاعت ان لیڈران میں شامل ہیں جوادبی مرکز کامراز سے وابستہ تھے‘ جو کشمیر کے لسانی اور ثقافتی تہذیب کا احیاء عمل میں لانے کے لئے کام کرنے والے اداروں میں سے ایک ہے۔

شجاعت ٹریک ڈو سرکٹ پر بھی فعال تھے‘ لندن کی کونسلیشن ریسورسس کے لئے بہت قریب سے کام کرتے تھے جس میں ہندوستان سے پاکستان دونوں ایل او سی سے دبئی ‘ استنبول کے بشمول برصغیر کے دوردوراز والے علاقوں کا کام کیاجاتا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب چیف منسٹر محبوبہ مفتی امن کے لئے جنگ لڑرہی ہیں اس میں شجاعت کی موت ایک بڑا نقصان ہے۔

وہ جن کے شجاعت اور رائز نگ کشمیر کے نظریات سے اختلاف تھے‘ اب وہ آزاد صحافت کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔مگر بلاکسی کے خدشہ کے آج کی تاریخ میں کشمیر شجاعت کے بغیر لامحدود پسماندہ بن گیاہے۔

ان کے لئے عظیم خراج یہی ہوگا کہ پرتشدد اور اس کو انجام دینے والوں کے خلاف جو لڑائی انہوں نے شروع کی تھی اس کو برقرار رکھنا پڑیگا۔.