نفرت کی سیاست اور آسام میں این آر سی کا مسئلہ ۔۔بقلم :۔ ناز اصغر 

آسام میں شہریو ں کی قومی فہرست این آر سی تیار کرنے کا مسئلہ روز بروز پیچیدہ ہوتاجارہا ہے ۔اور آخر یہ مسئلہ کیا شکل اختیار کرے گا اس ابھی اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔این آر سی کا بن جانا مسئلہ کا حل ہوگا یا ایک نئے مسئلہ کی شروعات ہوگی اس پر ملک میں طرح طرح کی بحثیں چھڑی ہیں ۔جس کے پا س ثبو ت نہ ہونے کی صورت میں بنگلہ دیشی قرار دئے جائیں گے ان کا کیا ہوگا ۔ظاہر ہے بنگلہ دیش ان کو اپنا شہری تسلیم نہیں کرے گا اور ان لو گوں کو ملک بدر کردے گا ۔لیکن شہری نہ مانے کی صورت میں ان کو ہندوستان میں ووٹ دینے اور زمین اور نوکری پانے کے اختیارات سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔

ایسی صورت میں ان کا اور ان کے اولاد کا مستقبل بہت ہی کربناک ہے ۔ ۳۰؍ جولائی کو این آر سی کی فہرست جاری کی گئی اس میں آسام کے ۴۰؍ لاکھ لوگوں کے نام نہیں تھے ۔عدالت عظمیٰ کو اس معاملہ مداخلت کرنی پڑی ۔آسام سمجھوتے کے تحت غیر ملکیوں یا دوسرے لفظوں میں بنگلہ دیشی مسلمان کی نشاندہی کر کے ان کو واپس ان کے ملک بھیجنے کے وعدہ کو سرکار کے مکمل نہ کرنے پر عدالت کی مدد مانگی ۔ ان ۴۰؍ لاکھ لوگوں کوپھر سے موقع دیا جارہا ہے کہ وہ اپنی آسام کے مستقل باشندے ہونے کا ثبوت دیں ۔

او راگر اتنے سارے لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے تو ملک پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔سپریم کورٹ نے بھی اس پر تشویش کااظہار کیا ہے ۔گذشتہ روز فالی ایس نریمن نے این آر سی سے متعلق ایک ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے شہریت سے بے دخل کردینا بہت سی پریشان کن نتائج برآمد ہوں گے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران بہت سے لوگ بھاگ کر سرحد سے متصل مغربی بنگال او رآسا م کی ریاستوں میں پناہ گزیں ہوگئے ۔ لیکن آسام میں بنگلہ دیش جو کہ پہلے مشرقی پاکستان کہلاتا تھا وہاں سے بنگالی بولنے والے مسلمانو ں کے آنے سے سلسلہ آزادی سے پہلے سے جاری تھا ۔

انگریزوں کے زمانے میں یہ لوگ آسام میں چائے کے باغات میں کام کرنے کیلئے لائے جاتے تھے ۔ ملک کی تقسیم کے وقت بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فساد کی وجہ سے بہت سے بنگالی ہندو بھی اس وقت کے مشرقی پاکستان سے آسام چلے گئے ۔