نفرت کا جواب نفرت سے دینا حماقت ہے: از :۔ شکیل شمسی

اس بات سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں ان دنوں ایک ایسا گروپ سرگرم ہے جو اپنے آپ کو بہت فخر سے ہندو کہتا ہے ۔بہت جوش سے خود کو بھارتیہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور بہت گہرے رنگ کا بھگوا لباس پہن کر گلی گلی میں گھومتا ہے ۔

لیکن اس گروپ کی اصلیت یہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہندوازم کی محبت میں یہ سب نہیں کر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں ،عیسائیوں ،سکھوں اور دلتوں کے خلاف جو ان کے دلوں میں نفرت بھری ہے اس کے تحت کر رہے ہیں۔

اس گروپ کے دل میں اگر ہندو ازم کی محبت ہوتی تو یہ بھی اہنسا ،شانتی او رسہن شیلتا کی تلقین کرتا۔

اس گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک انتہا ء پسند نے دو دن پہلے لکھنؤ میں اولا کیب بک کی لیکن جب اس کے فون پر مسیج آیا کہ اس کے پاس مسعود عالم نام کا ڈرائیور پہنچ رہا ہے تو اس ہندو انتہا پسند نے یہ کہہ کر اولا کیب منسوخ کردی کہ میں اپنے پیسہ کسی جہادی کو نہیں دینا چاہتا ۔

اسلئے میں مسلم ڈرائیور کی خدمات نہیں لوں گا۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی اس انتہا پسند اور نفرت کے سودا گر نے بہت فخر یہ انداز میں اپنے دل میں بھری نفرت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ٹیکسی بک کرنے اور اسکو کینسل کرنے کی وجہ کو سوشل میڈیا پر بھی ڈالدیا اور اپنے نظریات رکھنے والوں سے خوب واہ واہی لوٹی ۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس ملک کے بیدار اور مہذب شہریوں نے بلا تفریق مذہب اس انتہا پسند کی خوب جم کر مذمت کی ۔

مگر ایسے لوگ مذمت کئے جانے سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوتے کیوں کہ ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ سماج میں نفرت پھیلے ۔وہ یہی چاہتے ہیں کہ جوشیلے اور جذباتی قسم کے بیوقوف مسلمان اس کوخوب جم کر گالیا ں دیں تاکہ وہ انتہا پسند ہندوؤ ں میں مزید مقبول ہو۔

آخر میں ایک بات کہتا چلوں کہ اسی طبقہ نے اس ملک میں ہندومسلم تفرقہ ڈالا۔اسی طبقہ نے سکھوں کا خون بہایا ، اسی طبقہ نے عیسائی مشنریز کو زندہ جلایا ، اسی گروپ کے لوگوں نے دلتوں کی زندگی کو اجیرن بنایا ۔